Newspaper Article 02/11/2014
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اقتصادی اور معاشی حالت کسی بھی فرد یا قوم کے لئے کس قدر اہمیت کی حامل ہے ۔ کیونکہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر اگر معاشی استحکام حاصل نہ ہو تو قدم قدم پر نہ چاہتے ہوئے بھی مختلف قسم کے سمجھوتوں پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔اور یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ افلاس سے تو محسنِ انسانیت حضور ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے ۔
بہر کیف بائیس اور تئیس اکتوبر کو اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور “ایچ ایس ایف “کے زیرِ اہتمام دارالحکومت میں دو روزہ قومی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا ” روڈمیپ فار اکنامک گروتھ آف پاکستان “۔ اس کانفرنس میں ملک کے نامور ماہرین اقتصادیات نے پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل کی نہ صرف نشان دہی کی بلکہ ان کے حل بھی تجویز کیے۔
اس کے افتتاحی سیشن میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کےوی سی ” ڈاکٹر اسد زمان” نے کہا کہ وہ اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے کہ ملکی اکانو می کو بہتر کرنے سے خود بخود غربت دور ہو جاتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے عوام کی غربت دور کرنے کی طرف بھر پور توجہ دی جانے چاہیے ، اس کے نتیجے میں اجتماعی اقتصادی حالت خود بخود ٹھیک ہو جائے گی اور اس حوالے سے ہمارے معاشرتی اور سماجی رویوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے کیوں کہ معیار زندگی بلند نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شادی، اموات اور روایتی تقریبات پر غیر ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسئلے حل نہیں ہو پاتے۔ان کے مطابق صرف جی ڈی پی بڑھنے سے اجتماعی غربت دور ہونے کی بجائے صرف چند درجن نئے ارب پتی تو وجو د میں آ سکتے ہیں مگر اجتماعی طرز زندگی میں بہتری ممکن نہیں ۔ گویا ان کی رائے تھی کہ محض جی ڈی پی میں اضافے کے ساتھ اجتماعی طرز زندگی میں بہتری لانی ممکن نہیں ۔
اس کانفرنس میں ڈاکٹر اشفاق حسن سمیت ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے معاشی ماہرین نے شرکت کی ۔علاوہ ازیں پاکستان میں جرمن ادارے “ایچ ایس ایف “کے پاکستان میں سربراہ ” مسٹر کرسٹوف “بھی شامل تھے ۔
اس سیمینار میں مختلف ماہرین اس امر پر متفق تھے کہ حالیہ برسوں میں اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بظاہر لگتا ہے کہ ملکی معاشیات بہت بڑے بحران سے دوچار ہو چکی ہے البتہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کے رہن سہن کا انداز بدلا ہے ۔آج سے چند عشرے پہلے جس فرد یا خاندان کو کھانے کے لئے بمشکل روٹی میسر ہوتی تھی ، اسے خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والا سمجھا جاتا تھا مگر اب جس کے پاس موبائیل خریدنے کے لئے استطاعت نہ ہو اس پر بھی غربت کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے ۔
اس کانفرنس کے اکثر شرکا نے اس امر کا اظہار کیا کہ ملکی ترقی کے لئے ہیومن ڈیولپمنٹ بنیادی شرط قرار پانی چاہیے ۔ علاوہ ازیں امن و امان ، داخلی اور خارجی سلامتی ، سیاسی اور معاشی استحکام اور زراعت کے شعبوں میں توازن اور تسلسل ضروری ہے ۔علاوہ ازیں بچت کے رجحان کو فروغ دیا جائے اور ملک میں ترجیحی بنیادوں پر مردم شماری کروائی جانی چاہیے کونکہ گذشتہ سولہ برسوں میں مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے اقتصادی اہداف کو موثر ڈھنگ سے حاصل کر پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے کیونکہ اگر یہی معلوم نہ ہو کہ کل آبادی کتنی ہے تو آپ کے سارے عمل محض مفروضوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کے نتائج بہتر نہیں ہو سکتے ۔ یاد رہے کہ آخری بار 1998 میں مردم شماری ہوئی تھی ۔
کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے قائداعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر’’ ڈاکٹر اعتزاز احمد ‘‘ نے نہایت موثر انداز میں معاشی حالت بہتر بنانے پر گفتگو کی ۔ علاوہ ازیں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ریٹائرڈ امبیسڈر ’’سہیل امین‘‘ نے اس موقف کا اظہار کیا کہ پاکستان میں’’ نالج بیسڈ اکانو می‘‘ کی جانب توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ’’ اکانومی آف نالج ‘‘ کے ذریعے بغیر سرمائے کے اچھے اور قابلِ عمل آئیڈیاز کی بنیاد پر بھی اقتصادی حالت خاطر خواہ ڈھنگ سے بہتر بنانے کی سعی کی جا سکتی ہے ۔
وزیر اعظم معائنہ کمیشن کے چیئر مین نے سبھی ماہرین اقتصادیات اور سول سوسائٹی کے تمام حلقوں سے اپیل کی کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اور وہ اس ضمن میں حکومت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں ۔
بہرکیف امید کی جانی چاہیے کہ ملک کے سبھی متعلقہ حلقے اور سیاسی قیادت مجموعی معاشی حالت بہتر بنانے کے ضمن میں اپنا کردار زیادہ موثر ڈھنگ اور خلوص نیت سے ادا کریں گے ۔
اٹھائیس اکتوبر کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )