Newspaper Article 20/09/2014
’’سمتھ رچرڈ سن فاؤنڈیشن‘‘ نام کے ایک امریکی تھنک ٹینک نے کچھ عرصہ قبل انکشاف کیا تھا کہ اس کی جانب سے ۲۰۰۳ میں حسین حقانی کو پاک آرمی کے خلاف کتاب لکھنے کے لئے ایک لاکھ امریکی ڈالر دیئے گئے۔یاد رہے کہ اس ادارے کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں کو درپیش مشکلات پر قابو پانے میں خصوصی کردار ادا کرے ۔اس ادارے کے مطابق حسین حقانی سے یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ وہ پاک افواج اور پاکستان کے مذہبی طبقات کے باہمی تعلقات پر مبنی ایک کتاب لکھیں گے علاوہ ازیں ان مبینہ تعلقات کے امریکی پالیسیوں پر ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لیں گے۔
علاوہ ازیں اس ادارے نے یہ تذکرہ بھی کیا ہے کہ اس نے ۲۰۰۴ میں ایک دوسرے امریکی تھنک ٹینک ’’کار نیگی انڈومنٹ فار انٹر نیشنل پیس‘‘ کی وساطت سے حسین حقانی کو ایک لاکھ پچتھر ہزار ڈالر کی خطیر رقم بطورِ معاوضہ ادا کی گئے۔یہ رقم دیئے جانے کا مقصد یہ تھا کہ حقانی کی جانب سے ایسی رہنما تجاویز دی جائیں جن پرعمل کر کے پاکستان کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی مرتب کرنے میں ٹھوس مدد مل سکے ۔موصوف نے اس سلسلے میں دونوں ممالک کے متعلقہ ماہرین پر مشتمل ’’ورکنگ گروپس‘‘ کے ذریعے پالیسی پیپر تیار کرنا تھا ۔اور جناب حقانی صاحب نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان تھا ’’پاکستان،ملٹری اور مسجد کے درمیان ‘‘
غیر جانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ اس ضمن میں پاکستانی میڈیا کے بعض حلقوں سے بھی رابطہ کیا گیا جنہیں جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے نام پر مدد دینے کو کہا گیا اور ان کو اس کام کا انتہائی معقول معاوضہ بھی ادا کیا گیا تا کہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں میں ہر ممکن ڈھنگ سے پاک آرمی کو ہدفِ تنقید بنائیں ۔اس پس منظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ واقعاتی شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بھاری اکثریت حب الوطنی کے سچے جذبات کی بنا پر پاک مخالفین کے اس دامِ فریب میں نہیں آئے مگر غالباً چند شخصیات نے اس کام میں کوئی عار نہیں سمجھی اور وہ ہنوز اپنا کام انتہائی تن دہی سے کر رہے ہیں۔
جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انسانی حقوق کے ان علمبرداروں نے کبھی ’’اروم شرمیلا‘‘ نامی خاتون کا ذکر تک نہیں کیا ۔یاد رہے کہ بھارتی صوبے منی پور سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے گذشتہ ۱۴ برسوں سے انڈین آرمی کے مظالم کے خلاف مرن برت رکھا ہوا ہے ۔مظلوم خاتون نے ۲ نومبر ۲۰۰۰ سے مسلسل بھوک ہڑتال کر رکھی ہے اور بھارتی فوج نے ۱۴ برسوں سے اسے قید میں ڈال رکھا ہے ۔اروم شرمیلا کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ شمال مشرقی بھارت کے مختلف صوبوں خصوصاً منی پور میں بھارتی فوج کو حاصل خصوصی اختیارات یعنی ’’اے ایف ایس پی اے‘‘ (آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ) نامی کالے قوانین ختم کیے جائیں کیوں کہ ان کے ذریعے بھارتی فوج انتہائی غیر انسانی مظالم کی مرتکب ہو رہی ہیں۔واضح رہے کہ ۲ نومبر ۲۰۰۰ کو انڈین آرمی کی رجمنٹ ’’راشٹریہ رائفلز‘‘ کے اہل کاروں نے منی پور سے تعلق رکھنے والے ۱۰ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔یاد رہے کہ اروم شرمیلا کو پچھلے ۱۴ برس سے زبردستی ناک کے راستے خوراک دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے تاحال اس کی سانسوں کی ڈور ٹوٹی نہیں۔
یہ امر بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھبی قابض بھارتی فوج نے ’’اے ایف ایس پی اے‘‘نافذ کر رکھا ہے اور پوری کشمیری قوم بشمول بھارت نواز شخصیات ’’عمر عبداللہ‘‘ اور ’’محبوبہ مفتی‘‘ اس کالے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں مگر قابض انڈین آرمی اس پر آمادہ نہیں۔بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ان باتوں کا ذکر ہمارے اکثر اینکرز اور کالم نگار بھولے سے بھی کرنا مناسب نہیں سمجھتے اور اگر یہ لاعلمی کی بنا پر ہو رہا ہے،تب بھی قابلِ افسوس ہے لیکن اگر کسی ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے تو انتہائی قابلِ مذمت روش ہے ۔امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں ان چینلز اور اخبارات پر مشتمل گروہ اپنے رویوں پر نظر ثانی کرے گا۔
ستمبر 20 کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )