Skip to content Skip to footer

انڈین آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

’’سمتھ رچرڈ سن فاؤنڈیشن‘‘ نام کے ایک امریکی تھنک ٹینک نے کچھ عرصہ قبل انکشاف کیا تھا کہ اس کی جانب سے ۲۰۰۳ میں حسین حقانی کو پاک آرمی کے خلاف کتاب لکھنے کے لئے ایک لاکھ امریکی ڈالر دیئے گئے۔یاد رہے کہ اس ادارے کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں کو درپیش مشکلات پر قابو پانے میں خصوصی کردار ادا کرے ۔اس ادارے کے مطابق حسین حقانی سے یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ وہ پاک افواج اور پاکستان کے مذہبی طبقات کے باہمی تعلقات پر مبنی ایک کتاب لکھیں گے علاوہ ازیں ان مبینہ تعلقات کے امریکی پالیسیوں پر ممکنہ اثرات کا بھی جائزہ لیں گے۔
علاوہ ازیں اس ادارے نے یہ تذکرہ بھی کیا ہے کہ اس نے ۲۰۰۴ میں ایک دوسرے امریکی تھنک ٹینک ’’کار نیگی انڈومنٹ فار انٹر نیشنل پیس‘‘ کی وساطت سے حسین حقانی کو ایک لاکھ پچتھر ہزار ڈالر کی خطیر رقم بطورِ معاوضہ ادا کی گئے۔یہ رقم دیئے جانے کا مقصد یہ تھا کہ حقانی کی جانب سے ایسی رہنما تجاویز دی جائیں جن پرعمل کر کے پاکستان کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی مرتب کرنے میں ٹھوس مدد مل سکے ۔موصوف نے اس سلسلے میں دونوں ممالک کے متعلقہ ماہرین پر مشتمل ’’ورکنگ گروپس‘‘ کے ذریعے پالیسی پیپر تیار کرنا تھا ۔اور جناب حقانی صاحب نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان تھا ’’پاکستان،ملٹری اور مسجد کے درمیان ‘‘
غیر جانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ اس ضمن میں پاکستانی میڈیا کے بعض حلقوں سے بھی رابطہ کیا گیا جنہیں جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے نام پر مدد دینے کو کہا گیا اور ان کو اس کام کا انتہائی معقول معاوضہ بھی ادا کیا گیا تا کہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں میں ہر ممکن ڈھنگ سے پاک آرمی کو ہدفِ تنقید بنائیں ۔اس پس منظر میں مبصرین نے کہا ہے کہ واقعاتی شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بھاری اکثریت حب الوطنی کے سچے جذبات کی بنا پر پاک مخالفین کے اس دامِ فریب میں نہیں آئے مگر غالباً چند شخصیات نے اس کام میں کوئی عار نہیں سمجھی اور وہ ہنوز اپنا کام انتہائی تن دہی سے کر رہے ہیں۔
جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انسانی حقوق کے ان علمبرداروں نے کبھی ’’اروم شرمیلا‘‘ نامی خاتون کا ذکر تک نہیں کیا ۔یاد رہے کہ بھارتی صوبے منی پور سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے گذشتہ ۱۴ برسوں سے انڈین آرمی کے مظالم کے خلاف مرن برت رکھا ہوا ہے ۔مظلوم خاتون نے ۲ نومبر ۲۰۰۰ سے مسلسل بھوک ہڑتال کر رکھی ہے اور بھارتی فوج نے ۱۴ برسوں سے اسے قید میں ڈال رکھا ہے ۔اروم شرمیلا کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ شمال مشرقی بھارت کے مختلف صوبوں خصوصاً منی پور میں بھارتی فوج کو حاصل خصوصی اختیارات یعنی ’’اے ایف ایس پی اے‘‘ (آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ) نامی کالے قوانین ختم کیے جائیں کیوں کہ ان کے ذریعے بھارتی فوج انتہائی غیر انسانی مظالم کی مرتکب ہو رہی ہیں۔واضح رہے کہ ۲ نومبر ۲۰۰۰ کو انڈین آرمی کی رجمنٹ ’’راشٹریہ رائفلز‘‘ کے اہل کاروں نے منی پور سے تعلق رکھنے والے ۱۰ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔یاد رہے کہ اروم شرمیلا کو پچھلے ۱۴ برس سے زبردستی ناک کے راستے خوراک دی جاتی ہے اور اسی وجہ سے تاحال اس کی سانسوں کی ڈور ٹوٹی نہیں۔
یہ امر بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھبی قابض بھارتی فوج نے ’’اے ایف ایس پی اے‘‘نافذ کر رکھا ہے اور پوری کشمیری قوم بشمول بھارت نواز شخصیات ’’عمر عبداللہ‘‘ اور ’’محبوبہ مفتی‘‘ اس کالے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں مگر قابض انڈین آرمی اس پر آمادہ نہیں۔بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ان باتوں کا ذکر ہمارے اکثر اینکرز اور کالم نگار بھولے سے بھی کرنا مناسب نہیں سمجھتے اور اگر یہ لاعلمی کی بنا پر ہو رہا ہے،تب بھی قابلِ افسوس ہے لیکن اگر کسی ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے تو انتہائی قابلِ مذمت روش ہے ۔امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں ان چینلز اور اخبارات پر مشتمل گروہ اپنے رویوں پر نظر ثانی کرے گا۔

ستمبر 20 کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements