Newspaper Article 31/12/2018
پاک عسکری ترجمان نے جس موثر طریقے سے انڈین سیکولرازم کی حقیقت کو طشت از بام کیا ہے وہ یقیناًقابل ستائش ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ دس دسمبر کو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ علاوہ ازیں چند روز قبل ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے 6 دسمبر کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا کیونکہ 26 برس قبل یعنی 6 دسمبر 1992 کو جنونی ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کر کے بھارتی مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچائی تھی اس کا مداوا آج تک نہیں ہو سکا بلکہ انتہا پسند ہندو گروہ کھلے عام اپنے اس غیر انسانی جرم کو بطور کارنامہ بیان کرتے ہیں اور سنگھ پریوار میں شامل بی جے پی سمیت ساری جماعتیں اس دن کو ’’ گرو دیوس‘‘ یعنی یومِ فخر کے طور پر مناتی ہیں ۔دوسری جانب سبھی جانتے ہیں کہ 17 برس پیشتر یعنی تیرہ دسمبر 2001 کو دہلی کے حکمران گروہ نے ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کا ڈرامہ رچا یا تھا جس میں مجموعی طور پر 14 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
غیر جانبدار مبصرین نے اس معاملے کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے رائے ظاہر کی ہے کہ اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحے کی سنگینی کے پیش نظر بھارت سرکار نے اس موقع کو غنیمت جانا اور پوری کوشش کی کہ چونکہ پوری دنیا کی توجہ نائن الیون کے واقعے کی وجہ سے جنوبی ایشیاء خصوصاً افغانستان پر مرکوز ہو چکی ہے لہذا ایسے میں بھارتی حکمرانوں نے بھی اس بہتی گنگا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور ’’را ‘‘نے فوری طور پر تیرہ دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ پر نام نہاد حملے کا ناٹک رچا ڈالا جس کے فوراً بعد اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی اور ان کے ہمنواؤں نے پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور دہلی نے پاکستان کی سرحد پر دس لاکھ سے زائد فوج لا کھڑی کی جس کے ردعمل کے طور پر پاکستان نے بھی خاطرخواہ دفاعی اقدامات اٹھائے اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے پوری قوم اپنے تمام اختلافات سے اوپر اٹھ کر سیسہ پلائی دیوار کی مانندایک ہو گئی ۔ یہ صورتحال پورے دس ماہ تک جاری رہی، اس دوران دہلی سرکار نے وطن عزیز کے خلاف تند و تیز الزامات لگاتے ہوئے اپنے میڈیا کے ذریعے ایک ہیجان پیدا کیا جس کا تصور بھی کوئی مہذب انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا ۔
مبصرین کے مطابق یوں تو دور حاضر کو بہت سے حلقے انسانی تہذیب و تمدن اور انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے مثا لی قرار دیتے نہیں تھکتے، مگر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو اس تاثر کی تائید کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے، خصوصاً آج بھی دنیا میں ایسے بہت سے بد قسمت خطے موجود ہیں جہاں انسانی حقوق کی پامالیوں کا بدترین سلسلہ اپنی پوری شدت اور تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور ایسے علاقوں میں یقیناًمقبوضہ کشمیر اور فلسطین سر فہرست ہے ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں قابض بھارتی افواج کی جانب سے گذشتہ 71سالوں سے غیر انسانی مظالم کی انتہا ہو چکی ہے مگر اسے عالمی ضمیر کی بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس جانب عالمی برادری نے ہنوذ خاطر خواہ توجہ نہ دی اور اسی وجہ سے اس علاقے میں کشمیریوں کی نسل کشی کا قبیح عمل نہ صرف جاری ہے بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ جنگی جرائم بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کو امن کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے، اس ضمن میں جارحیت کے نقطہ نظر سے جنگ کی منصوبہ بندی، تیاری اور عملی جارحیت شامل ہیں۔ جنگی جرائم کی دوسری قسم وہ ہے جس کے مطابق انسانی اقدار کے خلاف جرائم ہوتے ہیں اور ایسی صورتحال کے مطابق اگر دو ممالک یا گروہوں کے مابین بوجوہ جنگ کی نوبت آ ہی جائے تو اس جنگ کے دوران شہریوں کی ہلاکت، عوام پر جان بوجھ کر گولہ باری، زیر حراست افراد کے خلاف دوران حراست تشدد اور ہلاکتیں اور شہری ٹھکانوں کو تباہ کرنا شامل ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اگر کوئی فرد یا گروہ جان بوجھ کر اس قسم کے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے تو عالمی برادری کا فرض ہے کہ جنگی جرائم کے ٹربیونل قائم کر کے ایسے افراد کے خلاف باقاعدہ مقدمات چلائے جائیں اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ’’نورم برگ‘‘ میں عالمی برادری نے اسی بین الاقوامی قانون اور روایت کے تحت بہت سے نازی جرمنی کے اہلکاروں اور کئی جاپانیوں کو باقاعدہ مقدمہ چلانے کے بعد مختلف نوعیت کی سنگین سزائیں دی تھیں اور پھر گذشتہ برسوں میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد سربیا کے حکمران ’’ملازووچ‘‘ اور اس کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کیا اور ہیگ (ہالینڈ میں قائم جنگی جرائم کے ٹربیونل ) میں ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ اس کے علاوہ کمبوڈیا کے سابق حکمران ’’پول پاٹ‘‘ کے قریبی ساتھیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کے جرم میں بھی مقدمات چلے۔
ایسی صورتحال میں بہت سے حلقوں کی یہ رائے خاصی وزن اختیار کر گئی ہے کہ ربع صدی سے بھی زائد عرصے سے جس بڑے پیمانے پر جموں کشمیر کی مقبوضہ ریاست میں انسانی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئیں اور جس شدت سے یہ سلسلہ جاری ہے، ہزاروں افراد کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا،ان جرائم کے مرتکب بھارتیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر قائم جنگی جرائم کے ٹربیونل میں مقدمات کیوں نہ چلائے جائیں؟ نہتے فلسطینیوں ، کشمیریوں اور خود بھارتی اقلیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو جس برے طریقے سے مجروح کیا جا رہا اسے ایک ستم ظریفی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف کچھ روز قبل بھارتی صوبے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو رام کا نہیں، وہ ہمارے کسی کام کا نہیں‘‘۔
مبصرین کے مطابق اس امر سے سبھی آگاہ ہیں کہ یہ گروہ ان مذموم عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ جلد ہی متھرا میں واقع عید گاہ مسجد اور بنارس کی عالم گیری مسجد کو بھی شہید کر دیں گے اور ان کی جگہوں پر بالترتیب کرشن مندر اور شیو مندر بنایا جائے گا ۔ اس کے علاوہ بھی پورے ہندوستان میں 3 ہزار دیگر مسجدوں اور درگاہوں کی فہرست جاری کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جلد یا بدیر ان تمام عبادت گاہوں کو مسمار کر دیا جائے گا ۔
بابری کی شہادت کے 26 سال مکمل ہونے پر غیر جانبدار حلقوں نے اس معاملے کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ اتر پردیش کے ضلع فیض آباد کے قصبے ایودھیا میں واقع 4 سو سالہ بابری کی مسجد کو جس طور شہید کیا گیا اس سے بھارتی سیکولر ازم کے دعووں کی قلعی پوری طرح کھل چکی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی برادری کے اکثر حلقے اپنی وقتی مصلحتوں کے پیش نظر اس انسانی المیے کا خاطر خواہ ڈھنگ سے اعتراف نہیں کر رہے جس کی وجہ سے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے جذبات اتنا فروغ پا چکے ہیں کہ بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت بھاری اکثریت سے چوتھی بار حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
مبصرین کے مطابق بابری مسجد کی شہادت میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کا جو کردار رہا ہے اس سے تو ایک عالم آگاہ ہے مگر یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ کانگرس سمیت کم و بیش سبھی بھارتی جماعتیں اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر اس جرم میں ملوث ہیں کیونکہ جب یہ جرم سر زد ہوا تو بھارت میں کانگرس کی حکومت تھی اور وزیر اعظم نرسیما راؤ چاہتے تو اس المیے کو وقوع پذیر ہونے سے رکوا سکتے تھے اور اگر ذرا سا بھی خلوص نیت ہوتا تو اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکتا تھا کیونکہ 1996 تک کانگرس کی حکومت قائم رہی تھی ۔
اس کے علاوہ مئی 1996 سے اپریل 1997تک دیوی گوڈا بھارتی وزیر اعظم رہے جو خود کو بہت بڑا سیکولر شخص قرار دیتے نہیں تھکتے مگر تب بھی اس غیر انسانی فعل کے مرتکب تمام افراد یونہی کھلے عام پھرتے رہے ۔اپریل 1997 سے مارچ 1998 تک اندر کمار گجرال بھارتی وزیر اعظم رہے ۔ وہ بھی سیکولر ازم کے بہت بڑے چیمپیئن رہے مگر اس ضمن میں کچھ نہ کر پائے ۔تب مارچ 1998 سے مئی 2004 تک واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی کا دورِ حکومت شروع ہوا ۔تب تو گویا بابری مسجد کی شہادت کے مجرموں کی لاٹری نکل آئی۔ ایڈوانی کو وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم مقرر کر کے گویا انعام سے نوازا گیا تو ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی مرکزی وزارت کے حقدار قرار پائے ۔ ونے کٹیار کو نہ صرف لوک سبھا رکن بنایا گیا بلکہ وزارت بھی دی گئی ۔ اوما بھارتی کو مدھیہ پردیش کی وزارت اعلیٰ ملی ۔ اسی طرح سوامی چمیانند مرکز میں نائب وزیر داخلہ بنے ۔ اس فہرست میں اور بھی بہت سے نام شامل تھے ۔ خود واجپائی نے دسمبر 2000 میں لوک سبھا میں گوہر افشانی کی کہ ’’ بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر کی تعمیر تمام بھارتی عوام کی امنگوں کی عکاس ہے اور بی جے پی اس ادھورے ایجنڈے کو بہر طور پورا کرے گی ۔‘‘
مئی 2004 سے 10 سال تک کانگرس اور سونیا گاندھی کی حکومت رہی مگر اس معاملے کے کسی ملزم کو ایک گھنٹے کی بھی سزا نہ سنائی جا سکی اور اب گذشتہ ساڑھے چار سال سے زائد عرصے سے تو گویا مودی جیسی انتہا پسند شخصیت ہی بھارت کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہے ۔ ایسے میں کوئی بہتری کی امید کرے بھی تو کیسے ۔بہرحال ایسے جرم کا ارتکاب اگر دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو شاید متعلقہ سوسائٹی کے سبھی بالا دست طبقات مارے ندامت کے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے مگر غالباً د نیا کی سب سے بڑی ’’جمہوریت‘‘ کے تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں ۔بہرحال انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر توقع کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں انسان دوست حلقے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھانے کی جانب سنجیدہ اور ٹھوس پیش رفت کریں گے۔
غیر جانبدار مبصرین نے اس معاملے کی تفصیلات کا جائزہ لیتے ہوئے رائے ظاہر کی ہے کہ اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحے کی سنگینی کے پیش نظر بھارت سرکار نے اس موقع کو غنیمت جانا اور پوری کوشش کی کہ چونکہ پوری دنیا کی توجہ نائن الیون کے واقعے کی وجہ سے جنوبی ایشیاء خصوصاً افغانستان پر مرکوز ہو چکی ہے لہذا ایسے میں بھارتی حکمرانوں نے بھی اس بہتی گنگا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور ’’را ‘‘نے فوری طور پر تیرہ دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ پر نام نہاد حملے کا ناٹک رچا ڈالا جس کے فوراً بعد اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی اور ان کے ہمنواؤں نے پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور دہلی نے پاکستان کی سرحد پر دس لاکھ سے زائد فوج لا کھڑی کی جس کے ردعمل کے طور پر پاکستان نے بھی خاطرخواہ دفاعی اقدامات اٹھائے اور بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے پوری قوم اپنے تمام اختلافات سے اوپر اٹھ کر سیسہ پلائی دیوار کی مانندایک ہو گئی ۔ یہ صورتحال پورے دس ماہ تک جاری رہی، اس دوران دہلی سرکار نے وطن عزیز کے خلاف تند و تیز الزامات لگاتے ہوئے اپنے میڈیا کے ذریعے ایک ہیجان پیدا کیا جس کا تصور بھی کوئی مہذب انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا ۔
مبصرین کے مطابق یوں تو دور حاضر کو بہت سے حلقے انسانی تہذیب و تمدن اور انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے مثا لی قرار دیتے نہیں تھکتے، مگر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو اس تاثر کی تائید کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے، خصوصاً آج بھی دنیا میں ایسے بہت سے بد قسمت خطے موجود ہیں جہاں انسانی حقوق کی پامالیوں کا بدترین سلسلہ اپنی پوری شدت اور تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور ایسے علاقوں میں یقیناًمقبوضہ کشمیر اور فلسطین سر فہرست ہے ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں قابض بھارتی افواج کی جانب سے گذشتہ 71سالوں سے غیر انسانی مظالم کی انتہا ہو چکی ہے مگر اسے عالمی ضمیر کی بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس جانب عالمی برادری نے ہنوذ خاطر خواہ توجہ نہ دی اور اسی وجہ سے اس علاقے میں کشمیریوں کی نسل کشی کا قبیح عمل نہ صرف جاری ہے بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ جنگی جرائم بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کو امن کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے، اس ضمن میں جارحیت کے نقطہ نظر سے جنگ کی منصوبہ بندی، تیاری اور عملی جارحیت شامل ہیں۔ جنگی جرائم کی دوسری قسم وہ ہے جس کے مطابق انسانی اقدار کے خلاف جرائم ہوتے ہیں اور ایسی صورتحال کے مطابق اگر دو ممالک یا گروہوں کے مابین بوجوہ جنگ کی نوبت آ ہی جائے تو اس جنگ کے دوران شہریوں کی ہلاکت، عوام پر جان بوجھ کر گولہ باری، زیر حراست افراد کے خلاف دوران حراست تشدد اور ہلاکتیں اور شہری ٹھکانوں کو تباہ کرنا شامل ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اگر کوئی فرد یا گروہ جان بوجھ کر اس قسم کے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے تو عالمی برادری کا فرض ہے کہ جنگی جرائم کے ٹربیونل قائم کر کے ایسے افراد کے خلاف باقاعدہ مقدمات چلائے جائیں اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ’’نورم برگ‘‘ میں عالمی برادری نے اسی بین الاقوامی قانون اور روایت کے تحت بہت سے نازی جرمنی کے اہلکاروں اور کئی جاپانیوں کو باقاعدہ مقدمہ چلانے کے بعد مختلف نوعیت کی سنگین سزائیں دی تھیں اور پھر گذشتہ برسوں میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد سربیا کے حکمران ’’ملازووچ‘‘ اور اس کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کیا اور ہیگ (ہالینڈ میں قائم جنگی جرائم کے ٹربیونل ) میں ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ اس کے علاوہ کمبوڈیا کے سابق حکمران ’’پول پاٹ‘‘ کے قریبی ساتھیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کے جرم میں بھی مقدمات چلے۔
ایسی صورتحال میں بہت سے حلقوں کی یہ رائے خاصی وزن اختیار کر گئی ہے کہ ربع صدی سے بھی زائد عرصے سے جس بڑے پیمانے پر جموں کشمیر کی مقبوضہ ریاست میں انسانی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئیں اور جس شدت سے یہ سلسلہ جاری ہے، ہزاروں افراد کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا،ان جرائم کے مرتکب بھارتیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر قائم جنگی جرائم کے ٹربیونل میں مقدمات کیوں نہ چلائے جائیں؟ نہتے فلسطینیوں ، کشمیریوں اور خود بھارتی اقلیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو جس برے طریقے سے مجروح کیا جا رہا اسے ایک ستم ظریفی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف کچھ روز قبل بھارتی صوبے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو رام کا نہیں، وہ ہمارے کسی کام کا نہیں‘‘۔
مبصرین کے مطابق اس امر سے سبھی آگاہ ہیں کہ یہ گروہ ان مذموم عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ جلد ہی متھرا میں واقع عید گاہ مسجد اور بنارس کی عالم گیری مسجد کو بھی شہید کر دیں گے اور ان کی جگہوں پر بالترتیب کرشن مندر اور شیو مندر بنایا جائے گا ۔ اس کے علاوہ بھی پورے ہندوستان میں 3 ہزار دیگر مسجدوں اور درگاہوں کی فہرست جاری کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جلد یا بدیر ان تمام عبادت گاہوں کو مسمار کر دیا جائے گا ۔
بابری کی شہادت کے 26 سال مکمل ہونے پر غیر جانبدار حلقوں نے اس معاملے کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ اتر پردیش کے ضلع فیض آباد کے قصبے ایودھیا میں واقع 4 سو سالہ بابری کی مسجد کو جس طور شہید کیا گیا اس سے بھارتی سیکولر ازم کے دعووں کی قلعی پوری طرح کھل چکی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی برادری کے اکثر حلقے اپنی وقتی مصلحتوں کے پیش نظر اس انسانی المیے کا خاطر خواہ ڈھنگ سے اعتراف نہیں کر رہے جس کی وجہ سے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے جذبات اتنا فروغ پا چکے ہیں کہ بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت بھاری اکثریت سے چوتھی بار حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
مبصرین کے مطابق بابری مسجد کی شہادت میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کا جو کردار رہا ہے اس سے تو ایک عالم آگاہ ہے مگر یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ کانگرس سمیت کم و بیش سبھی بھارتی جماعتیں اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر اس جرم میں ملوث ہیں کیونکہ جب یہ جرم سر زد ہوا تو بھارت میں کانگرس کی حکومت تھی اور وزیر اعظم نرسیما راؤ چاہتے تو اس المیے کو وقوع پذیر ہونے سے رکوا سکتے تھے اور اگر ذرا سا بھی خلوص نیت ہوتا تو اس گھناؤنے جرم میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکتا تھا کیونکہ 1996 تک کانگرس کی حکومت قائم رہی تھی ۔
اس کے علاوہ مئی 1996 سے اپریل 1997تک دیوی گوڈا بھارتی وزیر اعظم رہے جو خود کو بہت بڑا سیکولر شخص قرار دیتے نہیں تھکتے مگر تب بھی اس غیر انسانی فعل کے مرتکب تمام افراد یونہی کھلے عام پھرتے رہے ۔اپریل 1997 سے مارچ 1998 تک اندر کمار گجرال بھارتی وزیر اعظم رہے ۔ وہ بھی سیکولر ازم کے بہت بڑے چیمپیئن رہے مگر اس ضمن میں کچھ نہ کر پائے ۔تب مارچ 1998 سے مئی 2004 تک واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی کا دورِ حکومت شروع ہوا ۔تب تو گویا بابری مسجد کی شہادت کے مجرموں کی لاٹری نکل آئی۔ ایڈوانی کو وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم مقرر کر کے گویا انعام سے نوازا گیا تو ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی مرکزی وزارت کے حقدار قرار پائے ۔ ونے کٹیار کو نہ صرف لوک سبھا رکن بنایا گیا بلکہ وزارت بھی دی گئی ۔ اوما بھارتی کو مدھیہ پردیش کی وزارت اعلیٰ ملی ۔ اسی طرح سوامی چمیانند مرکز میں نائب وزیر داخلہ بنے ۔ اس فہرست میں اور بھی بہت سے نام شامل تھے ۔ خود واجپائی نے دسمبر 2000 میں لوک سبھا میں گوہر افشانی کی کہ ’’ بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر کی تعمیر تمام بھارتی عوام کی امنگوں کی عکاس ہے اور بی جے پی اس ادھورے ایجنڈے کو بہر طور پورا کرے گی ۔‘‘
مئی 2004 سے 10 سال تک کانگرس اور سونیا گاندھی کی حکومت رہی مگر اس معاملے کے کسی ملزم کو ایک گھنٹے کی بھی سزا نہ سنائی جا سکی اور اب گذشتہ ساڑھے چار سال سے زائد عرصے سے تو گویا مودی جیسی انتہا پسند شخصیت ہی بھارت کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہے ۔ ایسے میں کوئی بہتری کی امید کرے بھی تو کیسے ۔بہرحال ایسے جرم کا ارتکاب اگر دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو شاید متعلقہ سوسائٹی کے سبھی بالا دست طبقات مارے ندامت کے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے مگر غالباً د نیا کی سب سے بڑی ’’جمہوریت‘‘ کے تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں ۔بہرحال انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر توقع کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں انسان دوست حلقے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھانے کی جانب سنجیدہ اور ٹھوس پیش رفت کریں گے۔
دس دسمبر 2018 کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کیلئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)