Skip to content Skip to footer

بھارتی جارحیت،یومِ سیاہ اور کشمیر

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

بھارتی حکمرانوں کا روزِاول سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت اور رام راجیہ کے قیام کا خواب دیکھتے چلے آ رہے ہیں ۔اپنی اس مذموم روش کے زیرِاثر انہوں نے حیدر آباد دکن،جونا گڑھ اور مناور کو ہڑپ کیا ، گوا اور سکم پر قبضہ کیا اور ان سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر پر اپنا نا جائز تسلط جمایا اور اسے قائم رکھنے کے لئے دہلی سرکار بد ترین قسم کی ریاستی دہشتگردی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ابھی تک ایک لاکھ کے لگ بھگ معصوم کشمیریوں کو تہہ تیغ کیا جا چکا ہے۔مگر مقبوضہ کشمیر ریاست کے نہتے مگر جری عوام اپنی لازوال جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں ،اسی پس منظر میں پوری کشمیری قوم 27 اکتوبر کا دن ’’یومِ سیاہ ‘‘ کے طور پہ مناتی ہے۔b day 1اکثر با ضمیر حلقے اس دن کو ’’یومِ جارحیت بھارت‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔کیونکہ 27 اکتوبر1947 کوتمام اخلاقی بین الاقوامی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انڈین آرمی نے ریاست جموں کشمیر پر ناجائز قبضہ کر لیا اور بھارت کا یہ غاصبانہ تسلط 67 برس گزر جانے کے بعد بھی ہنوز جاری ہے۔حالانکہ اس نا جا ئز قبضے کے بعد کئی برسوں تک بھارت یہ وعدہ کرتا رہا کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی غرض سے حق خودرادیت کا موقع فراہم کیا جائے گا۔بلکہ اسی ضمن میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کو باقاعدہ قراردادوں کے ذریعے اس امر کا اظہار کیا کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا جائے تا کہ وہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ بھارت کی غلامی میں رہنا چاہتے ہیں یا اپنے مخلص ترین دوست پاکستان کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چا ہتے ہیں جس کے ساتھ ان کا مذہبی،ثقافتی رشتہ صدیوں سے برقرار ہے۔
ہندوستانی حکمرانوں کی وعدہ شکنی کا یہ عالم ہے کہ ابتدائی برسوں میں اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایک سے زائد مرتبہ واضح طور پر اعتراف بھی کیا اور کھلے لفظوں میں اعلان بھی کہ کشمیریوں کو ہر حال میں رائے شماری کا حق دیا جائے گا ،مگر بھارتی حکمرانوں کی کہہ مکرنیوں کی اس سے بڑی اور بدترین مثال کیا ہو گی کہ وقت گزرنے کے ساتھ پنڈت نہرو نے مقبوضہ ریاست کی بابت ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا راگ الاپنا شروع کر دیا اور یہ بے بنیاد دعویٰ ان دنوں بھی مودی سمیت اکثربھارتی وزیر کر رہے ہیں کیونکہ ان کو یہ بات بہت گراں گزری کہ چند ہفتے قبل وزیرِ اعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں میں جموں کشمیر کے مسئلے کو منصفانہ بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور عالمی برادری سے کہا کہ وہ کشمیری قوم کو استصواب رائے دینے کے حق کی بابت اپنا کردار ادا کرے ۔اسی لئے بھارت نے ورکنگ باؤنڈری اور LOC پر بلا اشتعال فائرنگ شروع کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں 16 سے زائد معصوم شہری زندہ رہنے کے بنیادی حق سے محروم جبکہ ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں ۔
مبصرین نے بھارتی حکومت کی اس بے معنی مگر مذموم روش پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہتے وقت دہلی کے حکمران یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج بھی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 b day 5کے تحت مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت حاصل ہے اور کوئی بھارتی شہری اس علاقے میں کوئی جائیداد نہیں خرید سکتا بلکہ اگر جموں کشمیر کی کوئی خاتون بھی کسی بھارتی شہری سے شادی کر لے تو وہ ریاست میں اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے محروم ہو جاتی ہے۔اس کے باوجود بھارت اگر اپنی راگنی الاپتا رہے تو اس سے زمینی حقائق بہر طور تبدیل نہیں ہو سکتے۔
کئی غیر ملکی سر براہوں نے بھی مختلف مواقع پر پاکستان کی ان کاوشوں کی تعریف کی ہے جو وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کر رہا ہے ،اس ضمن میں بھارت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر معقولیت کی راہ اپنائے اور اس مسئلے کو کشمیری عوام کی خواہشات اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر رضا مند ہو جائے وگرنہ یہ تو طے ہے کہ کسی قوم کو محض دہشت گردی کے ذریعے ہمیشہ کے لئے غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا خصوصاً جب وہ قوم اپنے ایک لاکھ سے زائد فرزند شہید کروا چکی ہو اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ غیروں کی غلامی کو قبول کر لے گی ۔ایسے فضول خواب صرف دہلی کے حکمران ہی دیکھ سکتے ہیں۔
مگر شاید ہندوستانی بالادست طبقات نے انسانی تاریخ سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کیا ۔تبھی تو وہ کشمیر کے حریت پسندوں کودہشت گرد قرار دینے کی سعی لا حاصل میں مصروف ہیں حالانکہ خود بھارت کے کئی دانشوروں نے کہا ہے کہ برطانوی اقتدار سے آزادی کی خاطر کانگریس اور کئی دوسرے ہندوستانی طبقات نے لمبی جدوجہد کی اس دوران سبھاش چندر بوس،بھگت سنگھ،چندر شیکھر آزاد وغیرہ کوبرطانوی حاکموں نے دہشتگرد قرار دیا مگر آج ہر خاص وعام بھارتی ’ ’بھگت سنگھ‘‘ وغیرہ کی سمادھی پر پھول چڑھاتے ہوئے انھیں تحریک آزادی ہند کے عظیم سپاہی قرار دیتے نہیں تھکتے۔’’سبھاش چندر بوس‘‘ جس نے آزادی کی خاطر جاپانی افواج سے مل کر متحدہ ہندوستان میں کئی متشدد کاروائیاں کیں۔انہیں بھارت کے حکمران طبقے ’’نیتا جی‘‘ کا خطاب دیتے ہیں ۔
مگر کشمیری حریت پسندوں کے خلاف ہر قسم کا ظلم روا رکھنا واجب سمجھا جاتا ہے،اب بھارتی حکمرانوں کو یہ کون سمجھائے کہ آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد کہہ دینا تو شاید ممکن ہے مگر اس بابت حتمی فیصلہ تاریخ کرتی ہے اور وقت کے فیصلے ہی بالعموم درست قرار پاتے ہیں ۔27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے ریاستی دہشتگردی کا جو گھاؤنا کھیل شروع کیا تھا اس کا انجام اب زیادہ دور کی بات نہیں کہ قانونِ فطرت ہے کہ ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور بھارتی سرکار کے ظلم کی رات بھی اب ڈھلنے والی ہے کیونکہ کسی بھی غاضب کے روکنے سے بھلا صبح آزادی کو طلوع ہونے سے کون روک پایا ہے؟یقیناًاس کا جواب نفی میں ہے۔مناسب ہو گا کہ ہندوستانی سرکار اس نوشتہ دیوار کو جتنی جلدی پڑھ لے اتنا ہی علاقائی امن کے لئے اچھی بات ہو گی۔بہر حال یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے 11 ستمبر 2014 کو کشمیر کے مے منصفانہ حل کی ضرورت پر زور دیا ہے علاوہ ازیں وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے جنرل اسمبلی میں تنازعہ کشمیر، اور دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے کردار کے بارے میں ٹھوس اور موثر لب و لہجہ اپنایا ہے جس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہونے کی توقع رکھی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ 26 اکتوبر کو لندن میں بھارتی قبضے کے خلاف کشمیری اور تمام انسان دوست حلقے’’ کشمیر ملین مارچ ‘‘ کے نام سے زور دار اور موثر احتجاج بھی کر رہے ہیں ۔ امید ہے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اپنا موثر اور مثبت کردار ادا کرے گی ۔

چھبیس اکتوبر کو نوائے وقت اور پاکستان میں شائع ہوا

(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام اآباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دارنہیں )

 

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements