Newspaper Article 18/11/2013
وطنِ عزیز کے میڈیا اور سول سوسائٹی کےایک مخصوص حلقے میں ریاست اور ریاستی اداروں کو مختلف حوالوں سے ہدفِ تنقید بنانا دانشوری اور جدت پسندی کی ایک علامت بن کر رہ گیا ہے۔ بد قسمتی سے اجتمائی خود مذمتی کی یہ روش خاصی پختہ ہو چکی ہے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے معاشرتی سیاسی اور ریاستی ڈھانچے میں بہت سی کوتاہیاں ہیں لیکن اس حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ امر بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ خدانخواستہ ہماری قومی سلامتی اور اس کے محافظ اداروں کو کوئی گزند پہنچی تو اجتمائی طور ملک و قوم کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس ضمن میں بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کا ہلکا سا موازنہ پیشِ نظر رہے تو شائد کفرانِ نعمت کے مرتکب ہمارے افراد اور گروہوں میں کچھ مثبت تبدیلی رونما ہو سکے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ بھارت کے جمہوریت اور سیکولرازم کے تمام تر دعووں کے باوجود 20کروڑ کے لگ بھگ ہندوستانی مسلمان آج بھی دوسرے ہی نہیں بلکہ تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ ایک انسان دوست بنگالی ہندو دانشور “شرت بسواش” نے کچھ عرصے پہلے “بی بی سی” کی ہندی سروس میں بھارتی مسلمانوں کی حالت کا ذکر کرتے کہا کہ بلا شبہ بھارت میں ڈاکٹر ذاکر حسین، فخر الدین علی احمد” اور “عبدالکلام” کو صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا اور ممبئی کی فلم انڈسٹری میں بھی چند مسلمان اداکار اہم مقام کے حامل رہے ہیں مگر اس سے آگے بھارتی مسلمانوں کے ضمن میں کوئی اچھی خبر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی “منموہن سنگھ” نے 9 مارچ 2005 کو “جسٹس سچر” کی سربراہی میں مسلمانوں کا احوال جاننے کے لئے جو سچر کمیٹی بنائی تھی وہ سات سال پہلے 30 نومبر 2006 کو اپنی رپورٹ پیش بھی کر چکی مگر بھارتی مسلمانوں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی ہے بہر کیف اس سچر رپورٹ کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی94.99 فیصد غریبی لکیر سے نیچے اور شہری علاقوں میں 61.1 فیصد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دیہی علاقوں کی 54.6 فیصد اور شہری علاقوں کی 60 فیصد نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔ دیہی مسلم آبادی کے 0.8 اور شہری علاقوں میں 3.1 مسلم گریجوئیٹ ہیں اور 1.2 پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔ مغربی بنگال کی کل آبادی کا 25 فیصد مسلمان ہیں مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح 4.2 فیصد ہے۔
“آسام” میں مسلم 40 فیصد مگر نوکریاں 11.2 فیصد۔”کیرالا” میں 20 فیصد آبادی کے پاس 10.4 نوکریاں ہیں البتہ “کرناٹک” میں 12.2 فیصد مسلم آبادی کے پاس نسبتاً بہتر یعنی 8.5 فیصد نوکریاں ہیں۔ بھارتی فوج اور متعلقہ خفیہ اداروں نے سچر کمیٹی کو سروے کی اجازت نہ دی مگر ذرائع کے مطابق بھارت کی 14 لاکھ سے زائد فوج میں مسلم تعداد 29 ہزار ہے ان میں سے بھی 50 فیصد کا تعلق مقبوضہ جموں کشمیر کی پیراملٹری فورسز سے ہے۔ یوں انڈین آرمی میں مسلمانوں کی شرح 3 فیصد سے بھی کم ہے اور اس میں بہت بھاری اکثریت نچلے درجے کے اہلکاروں کی ہے۔اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی اقلیت یا دوسری بڑی اکثریت کن نا مسائد حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔