Newspaper Article 25/03/2014
یوں تو پورے جنوبی ایشیاء میں وراثتی سیاست کا خاصا عمل دخل ہے مگر اس ضمن میں بھارت غالباً سرِ فہرست ہے۔حالانکہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے وہاں پر ہمیشہ وقتِ مقررہ پر انتخابات ہوتے آئے ہیں ایسے میں بظاہر تو وہاں پر موروثی سیاست کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا مگر سیاسی مبصرین اس امر پر حیران ہیں کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہندوستانی سیاست میں یہ عنصر خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے جسے مسلمہ جمہوری روایات کے تحت کسی طور بھی قابلِ رشک رجحان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
بھارت کی حکمران نہرو فیملی کی بابت تو تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ پہلے موتی لال نہرو کانگرس کے صدر رہے ۔اس کے بعد ان کے صاحبزادے جواہر لعل نہرو نے یہ منصب سنبھالا ۔15 اگست 1947 کو بھارت کے آزاد ہونے سے لے کر مئی 1964 تک وہ وزیرِ اعظم رہے ۔اس کے بعد 1966 تا مارچ 1977 اور پھر جنوری 1980 تا 31 اکتوبر 1984 تک ان کی بیٹی مسز اندرا گاندھی بھارتی وزیرِ اعظم رہیں۔جو اپنے سکھ باڈی گارڈز’’بے انت سنگھ‘‘ اور ’’ستونت سنگھ‘‘ کے ہاتھوں 31 اکتوبر 1984 کو قتل ہو گئیں۔
انھوں نے اپنے سیاسی وارث کے طور پر اپنے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کو تیار کیا تھا مگر جون 1980 میں سنجے گاندھی کی موت ہوائی جہاز کریش ہونے کی بنا پر ہو گئی۔ تب مسز گاندھی نے اپنے بڑے بیٹے راجیو گاندھی (جو ایئر انڈیا میں کمرشل پائلٹ تھے) کو سیاست میں لانے کا فیصلہ کیا جو سوا پانچ سال تک وزیرِ اعظم رہے ۔21 مئی 1991 میں تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں دہشتگردی کی واردات میں راجیو گاندھی جان کی بازی ہار گئے۔
1998 میں راجیو کی بیوہ مسز سونیا گاندھی نے کانگرس کی صدارت سنبھالی اور آج تک وہی اس عہدے پر فائز ہیں۔ان کے بیٹے راہل گاندھی کانگرس کے نائب صدر ہیں۔اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کی بیوہ مینیکا گاندھی یو پی کی لوک سبھا سیٹ ’’آنولہ‘‘ سے بی جے پی کی رکنِ پارلیمنٹ ہیں جبکہ موصوفہ کے اکلوتے بیٹے ’’ورون گاندھی‘‘ پیلی بھیت سے لوک سبھا کے رکن اور بی جے پی کے جنرل سیکرٹری ہیں۔
واضح رہے کہ اندرا گاندھی کی شادی ایک پارسی فیروز گاندھی سے ہوئی تھی اسی وجہ سے ان کے اور ان کی اولاد کے نام کے ساتھ نہرو کی بجائے گاندھی لگایا جاتا ہے۔وگرنہ مہاتما گاندھی سے اس خاندان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔اس خاندان کے کئی دوسرے افراد مثلاً مسز وجے لکشمی پنڈت (جواہر لعل نہرو کی بہن) اور ارون نہرو وغیرہ بھی مشیر اور سفارت کار رہے ہیں۔
موجودہ بھارتی صدر ’’پرنب مکر جی‘‘ جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک با اصول سیاست دان ہیں۔وہ جب جولائی 2012 میں صدارت کے عہدے پر فائز ہوئے تو انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے’’ابھے جیت مکرجی‘‘ (جو اعلیٰ بینکار تھے) کو فوراً لوک سبھا کا رکن منتخب کروایا اور اسے اپنا سیاسی جانشین بنا دیا۔
آئندہ ماہ ہونے والے الیکشن میں وزیرِ خزانہ چدم برم خود تو انتخاب نہیں لڑ رہے لیکن انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے’’ کارتی چدم برم‘‘ کو اپنے حلقے سے کانگرسی امیدوار نامزد کیا ہے۔
موروثی سیاست کا سلسلہ محض نہرو خاندان تک محدود نہیں بلکہ بھارت کے تمام صوبوں میں تقریباً یہی صورتحال ہے مثلاً یو پی کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے اپنے بیٹے ’’اکھلیش یادو‘‘ کو یو پی کا وزیرِ اعلیٰ بنایا ہوا ہے۔ملائم سنگھ کے چاروں بھائی اور بہو ڈمپل یادو بھی پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔
سابق بھارتی وزیرِ اعظم چرن سنگھ کے بیٹے اجیت سنگھ اور پوتے جینت چوہدری بھی لوک سبھا کے رکن ہیں۔یو پی کے ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ بہو گنا کے بیٹے ’’و جے بہو گنا‘‘ اتر کھنڈ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ رہے ہیں اور ان کا ایک بھائی رکنِ پارلیمنٹ اور بہن ریتا بہو گنا سابق وفاقی وزیر اور رکن پارلیمنٹ ہیں۔
یو پی کے سابق وزرائے اعلیٰ کلیان سنگھ ،مایا وتی ،کملا پتی تر پاٹھی اور راج ناتھ سنگھ(بی جے پی کے موجودہ صدر) کے قریبی عزیز بھی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان ہیں۔
یہی بلکہ اس سے بھی بد تر صورتحال بھارت کے باقی صوبوں میں بھی ہے جس کا تذکرہ کرنے کے لئے بہت سے مزید صفحات درکار ہیں لہذا ان کا تذکرہ انشاء اللہ آئندہ کسی نشست پر کیا جائے گا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)