Newspaper Article 11/03/2015
بی بی سی کی تیار کردہ دستاویزی فلم انڈیا ز ڈاٹر‘‘ کی بنا پر ان دنوں بھارتی سیاست اور معاشرے میں ایک کہرام سا مچا ہوا ہے کیونکہ مذکورہ فلم 16 دسمبر 2012 کو دہلی میں ’’ جیوتی سنگھ ‘‘ نامی 23 سالہ لڑکی کے ساتھ ہوئی بدترین زیادتی کے سانحے سے متعلق ہے ۔ بی بی سی چینل فور پر یہ فلم 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے دکھائی جانی تھی مگر اس سے چند دن قبل یعنی 3 مارچ کو بھارتی حکومت نے اعلیٰ ترین سطح پر اس موقف کا اعلان کیا تھا کہ اس کی نمائش کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی ۔ انڈین ہوم منسٹر ’’ راج ناتھ سنگھ‘‘ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں یہ کہا تھا مگر بی بی سی نے 5 مارچ کو نہ صرف یہ فلم دکھائی بلکہ اس امر کا اظہار کیا کہ وہ اس بھارتی موقف سے اتفاق نہیں کرتی اور آئندہ بھی یہ فلم دکھائی جاتی رہے گی کیونکہ اس میں بھارت میں خواتین کے خلاف ہونے والے مسلسل استحصال کا ذکر ہے چونکہ گند کارپٹ کے نیچے رکھنے سے ختم نہیں ہو جاتا ۔
یاد رہے کہ بی جے پی کی ترجمان ’’ میناکشی لیکھی ‘‘ نے کہا ہے کہ اس دستاویزی فلم کے نشر ہونے کے بعد بھارت میں سیر و سیاحت کے لئے آنے والی غیر ملکی خواتین میں کمی واقع ہو گی لہذا بی بی سی یا کسی بھی چینل یا اخبار کو اس بابت خاموش رہنا چاہیے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دہلی سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ ’’ چہرہ بد صورت ہو توآئینہ توڑنے سے کچھ نہیں ہوتا ‘‘۔
اسی تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ 8 مارچ کو دنیا بھر کی مانند بھارت میں بھی خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس ضمن میں خواتین کے احترام کی بابت بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں مگر دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں خواتین کی حالتِ زار کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اس ضمن میں مبصرین کا کہنا ہے کہ خواتین کی بے حرمتی اگرچہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی کسی نہ کسی حد تک جاری ہے مگر بھارت میں یہ قابلِ مذمت روش تو روز مرہ کا معمول بن چکی ہے ۔
گذشتہ کچھ عرصے سے تو ہندوستان کے طول و عرض میںیہ رجحان فروغ پذیر ہے کہ بھارت کی سیر و سیاحت یا دیگر امور کی خاطر آنے والی غیر ملکی خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے ۔ جس کی وجہ سے دنیا کے کئی ملکوں نے اپنی خواتین شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ انتہائی نا گزیر صورت کے بغیر بھارت نہ جائیں ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ پچھلے کچھ ہی عرصے میں بھارت آنے والی غیر ملکی خواتین کے ساتھ جنسی درندگی اور اجتماعی بد اخلاقی کے معاملات تشویش ناک حد تک بڑھ گئے ہیں ۔ اس صورتحال کی چند مثالیں درج ذیل ہیں ۔
جنوری 2013 میں جنوبی کوریا کی شہری ایک طالبہ ہوٹل میں رہائش پذیر تھی ۔ اس ہوٹل کے مالک کے بیٹے ’’ روی کمار ‘‘ نے اپنے دوستوں سمیت بد اخلاقی کی ۔
مارچ 2013 میں 38 سالہ سوئٹزر لینڈ کی شہری 6 افراد کے ہاتھوں اجتماعی آبرو ریزی کا نشانہ بنی۔
ایک برطانوی خاتون جو چھٹیاں گزارنے بھارت آئی تھیں ۔ وہ اس وقت شدید زخمی ہوئیں جب 4 اپریل 2013 کو ’’ آگرہ ‘‘ کے ایک ہوٹل میں ان کی عزت لوٹنے کی کوشش کی گئی ۔ موصوفہ اپنی عزت بچانے کے لئے ’’ پیلس ‘‘ ہوٹل کی کھڑکی سے نیچے کود گئیں ۔ جس کے نتیجے میں ان کی ٹانگ کی ہڈی بری طرح ٹوٹ گئی ۔
فروری 2013 میں ’’ گوڑ گاؤں ‘‘ ( صوبہ ہریانہ ) جو دارالحکومت دہلی سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ وہاں ایک چینی خاتون کو اوباش بھارتی نوجوان نے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا ۔
محض چند برس پہلے برطانیہ کی 15 برس کی سکول طالبہ ’’ سکارٹ کیلنگ ‘‘ اسی وحشیانہ طرزِ عمل کا نشانہ بنی اور اس معصوم کی لاش ’’ گوا ‘‘ کے ساحل پر پھینک دی گئی ۔
جون 2013 کو ہما چل پردیش کے تفریحی مقام ’’ منالی ‘‘ میں تین درندوں نے ایک ٹرک میں لفٹ دینے کے بہانے ایک امریکی خاتون کی آبرو ریزی کی ۔
31 مئی 2013 کو آئر لینڈ کی نوجوان خاتون کے ساتھ بھی ایسی ہی اجتماعی بد سلوکی کی گئی ۔ 21 برس کی یہ آئرش خاتون ’’ کالی گھاٹ ‘‘ کلکتہ میں اجتماعی بد اخلاقی کا نشانہ بنی۔
برازیل کی ایک 50 برس سے زائد خاتون اڑیسہ میں اسی سلوک کا نشانہ بنی ۔
سوازی لینڈ کی ایک نوجوان سیاح اجتماعی بے حرمتی کے نتیجے میں راجستھان کی راجدھانی ’’ جے پور ‘‘ کے نواحی قصبے ’’ بوندی ‘‘ میں اسی ضمن میں اپنی جان اور عزت سے ہاتھ دھو چکی ہے۔
اٹلی سے تعلق رکھنے والی دو سیاح خواتین کے ساتھ تامل ناڈو کے دارالحکومت ’’ چینائی ‘‘ میں جو کچھ ہوا ، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
اس قسم کی اور بھی درجنوں مثالیں ایسی ہیں جنہیں دیکھ اور سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار ریاست میں خواتین (وہ بھی غیر ملکی ) کتنی غیر محفوظ ہیں ۔ ایسے میں اس صورتحال کی بابت افسوس ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل برطانیہ اور سوئس حکومتوں نے اپنی خواتین کو ہدایت جاری کی کہ وہ بھارت کی سیر و سیاحت سے گریز کریں کیونکہ وہاں غیر ملکی خواتین کی عزت و آبرو اور زندگی کو بہت ہی خطرات لاحق ہیں ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ بھارت مین خواتین کے خلاف بڑھتا جسمانی اور جنسی استحصال کا خاص پس منظر ہے اور اس کی جڑیں ہندو دھرم کی تعلیمات اور مندروں میں مردانہ خصوصی اعضاء کی پوجا اور قدیم مندروں مثلاً بدری ناتھ ، کیدار ناتھ کی دیواروں پر نقش تصاویر سے بخوبی تلاش کی جا سکتی ہے ۔اسے موجودہ جدید ٹیکنالوجی مثلاً انٹر نیٹ وغیرہ پر موجود عریانیت نے مزید تحریک بخشی ہے اور خدشہ ہے کہ یہ سلسلہ خطر ناک حد تک بڑھ سکتا ہے ۔
ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ یورپ ، امریکہ اور دنیا کے دیگر خطوں سے آنی والی خواتین سیاح اپنی جان اور آبرو کی حفاظت کی غرض سے حتی الامکان بھارت آنے سے گریز کریں گی اور خود کو خوامخواہ خطرات میں نہیں ڈالیں گی ۔
اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مودی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ انسانی حقوق کی پا مالیوں کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے جس کا ذکر ’’ایمنیسٹی انٹر نیشنل ‘‘ نے بھی اپنی 2014 کی جاری کردہ رپورٹ میں وضاحت سے کیاہے۔
یہ امید بھی رکھنی بے جا نہ ہو گی کہ اس ضمن میں انسانی اور خواتین کے حقوق کے عالمی ادارے اپنی ذمے داریاں زیادہ موثر ڈھنگ سے نبھائیں گے تا کہ نہ صرف غیر ملکی بلکہ بھارتی خواتین کو بھی جنسی درندگی اور جسمانی و ذہنی استحصال سے بچایا جا سکے ۔
نو مارچ کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )