Newspaper Article 08/01/2018
یہ بات خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ ایک جانب امریکی صدر ٹرمپ نے نئے سال کے آغاز پر پاکستان کے خلاف وہ لب و لہجہ اختیار کیا جس کی مثال اس سے قبل کم ہی ملتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں پاکستان کے امریکہ کیساتھ باہمی تعلقات غالبا کم ترین سطح پر آچکے ہیں اور امریکی خاتون ’’نکی ہیلے‘‘ لگاتار پاکستان کے خلاف تمام مروجہ سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس پر بجا طور پر وزیراعظم سمیت عسکری اور سیاسی حلقوں نے مشترکہ طور پر ایک ٹھوس موقف اختیار کیا ہے ۔ سنجیدہ حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ وطن عزیز کے میڈیا کے تمام حلقے اور سول سوسائٹی اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آزمائش کی اس گھڑی میں ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں ، انشااللہ۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی خصوصی تو جہ کی حامل ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو 14تا17جنوری بھارت کا دورہ کررہے ہیں اور اس موقع پر دہلی سرکار کے ساتھ اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے جا رہے ہیں ۔یاد رہے کہ 1992 میں بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم نرسیما راؤ کے دور میں بھارت اور اسرائیل کے مابین مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے 2003 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ’ایرل شیرون ‘ نے بھارت کا دورہ کیا تھا ۔یہ کسی اسرائیلی وزیراعظم کا پہلا دورہِ بھارت تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس شخص نے متعدد بار فلسطینیوں کا بڑے پیمانے قتل عام کیا جس میں ’’سابرا ا ور شتیلا قتل عام‘‘ سر فہرست ہیں جس میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم اور نہتے فلسطینیوں اور لبنانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ موصوف کو فلسطینوں کے بوچر ؍قاتل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔اس کے مظالم کے واقعات اس قدر لرزہ خیز ہیں کہ ان کی تفصیلات کے لئے کئی ابواب درکار ہیں۔ قدرت کا قانون ہے کہ بعض اوقات جرائم کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے، ایرل شیرون کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اپنی عمر کے آخری ایام میں وہ دماغی توازن پوری طرح کھو چکا تھا اور بالآخر جسمانی طور پر بھی تقریباً آٹھ سال کوما کی حالت میں رہنے کے بعد 11 جنوری 2014 کو نشان عبرت بن کر رخصت ہوا۔
بہرحال مودی اور نتین یاہو پاکستان اور مسلم دشمنی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔اور دونوں اس امر کا ایک سے زائد بار اظہار کر چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کی دوستی لامحدود وسعتوں کی حامل ہے ۔ اپنے اسی آئندہ دورے کے دوران وہ گجرات میں مودی کے مہمان ہوں گے۔ علاوہ ازیں 28نومبر 2008کو ممبئی میں ہونے والے شدت پسند ی کے واقعات کے حوالے سے یاہو اور مودی ممبئی کی یہودی عبادت گاہ بھی جائیں گے ۔ مبصرین کے مطابق یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ ٹرمپ کی حالیہ یاوہ گوئی ،یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دینے اور اسرائیلی وزیراعظم کے دورہِ دہلی کو الگ الگ کر کے دیکھنا غالباً ایک بھول ہوگی ۔ اس تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ 40ملین ڈالر کی خطیر رقم تو بھارت اور اسرائیل میں فلموں اور اپنے میڈیا کی پروموشن اور فروغ پر خرچ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اے ایف پی کے مطابق انڈیا کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل سے 70ملین ڈالرکے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل خرید رہا ہے ۔
دوسری جانب 5جنوری کو ہر سال ایل او سی کے دونوں اطراف اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری یومِ حق خودارادیت کے طور پر مناتے ہیں اور اس موقع پر دنیا کے انسان دوست حلقوں کی توجہ بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور کشمیر پر اس کے نا جائز تسلط کی طرف دلانے کے لئے احتجاجی جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ساری دنیا آگاہ ہے کہ 5 جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ قرار داد کے ذریعے بھارت سے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے حقِ خودارادیت کا موقع فراہم کرے۔مگر دہلی کا حکمران ٹولہ اپنی روایتی ہٹ دھرمی تاحال جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی، ٹرمپ اور یاہو کی یہ مثلث پاکستان کی بابت جن عزائم کی حامل ہے اس کے پیش نظر وطن عزیز کے سبھی حلقوں کو بجا طور پر تشویش ہونی چاہیے کیونکہ ایسے جنونی ٹولے کا کسی بھی حد تک جانا بعید از قیاس نہیں ۔
پانچ جنوری کو روزنامہ اذکار میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)