Newspaper Article 19/06/2017
کون نہیں جانتا کہ کافی عرصے سے کابل کے حکمران گروہ نے پاکستان کے خلاف’’ بلیم گیم ‘‘ کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اپنی نا اہلیوں اور خامیوں پر توجہ دینے کی بجائے ہر کام میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا ان کی پسندیدہ روش بن چکی ہے ۔ پہلے ’’ حامد کرزئی ‘‘ یہی کام کرتے رہے اور اب را کے ایما پر ’’ این ڈی ایس ‘‘ نے بھی لگ بھگ یہی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ تبھی تو کابل میں ہونے والے دھماکے فوراً بعد فوری طور پر پاکستان پر الزام مڑھنے کی مذموم روش بر قرار رکھی گئی ۔ اسی لئے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اس کو ’’ دہلی ‘‘ اور ’’ کابل‘‘ کے بر سرِ اقتدار گروہ کی بد بختی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ اپنی اصلاح کرنے کی بجائے پاکستان پر نت نئے من گھڑت الزامات لگاتے رہتے ہیں ۔
دوسری جانب ہر باخبر حلقہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ تقریباً دو ہفتے قبل 25 مئی کو افغان نیشنل آرمی کے 19 سے زائد فوجی اہلکار اپنی ہی حلیف نیٹو فورسز کی بمباری کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 31 شدید زخمی ہوئے ۔ توجہ طلب امر ہے کہ افغان صوبے ’’ قندوز ‘‘ کے علاقے ’’ تلوکی ‘‘ اور ’’ ملا سردار ‘‘ میں افغان فورسز طالبان کے خلاف آپریشن کر رہی تھیں جب انھوں نے نیٹو فورسز سے مدد مانگی اور کہا کہ طالبان کے علاقے کو ٹارگٹ کیا جائے مگر نشانے اور اندازے کی غلطی سے نیٹو کے جنگی طیاروں نے افغان فورسز کو ہی نشانہ بنا ڈالا ۔ واضح رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں بلکہ افغانستان میں اس قسم کی باتیں لگ بھگ روز مرہ کا معمول ہیں ۔ یاد رہے کہ افغان حکومت اور نیٹو نے اس واقعے کی سنگینی کے پیشِ نظر اسے خبروں میں آنے سے روک دیا تھا ۔ اس کے علاوہ اس سلسلے کی تازہ کڑی کے طور پر گیارہ جون کو افغان صوبے ’’ ہلمند ‘‘ میں بالکل اسی طرح امریکی فوجی طیارے کی بمباری میں 3 افغان فوجی ہلاک جبکہ 2 زخمی ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے واقعات پر کسی حد تک افسوس ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔
علاوہ ازیں پاک سپہ سالار نے بھارتی جارحیت کیخلاف کشمیریوں کی جرات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلئے حمایت جاری رکھیں یاد رہے کہ جنرل باجوہ نے کہا کہ بھارتی فوج جتنے مرضی محاذ کھول لے پاک فوج ہر جارحیت کا بھر پور جواب دینے کی اہل ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پاک فوج وطن عزیز کو درپیش دفاعی اور سلامتی چیلنجز سے آگاہ ہے اور ہر قسم کی دہشتگردی کو شکست دینے کیلئے پُر عز م ہے اور ہندوستان کی ہر مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے جنوبی ایشیائی خطے کی بد قسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تمام تر کوششوں اور خواہشات کے باوجود دہلی کا حکمران ٹولہ اپنی دیرینہ منفی روش ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں اور ہر سطح پر دہلی نے سازشوں کا مکروہ جال بچھا رکھا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو بھی جواب میں بھارتی حکمرانوں کو سبق سکھانے کے لئے وقتاً فوقتاً منہ توڑ جواب دینا پڑتا ہے ۔ حالانکہ اس بات سے بھلاکسے آگاہی نہیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام کے خلاف مظالم کا ایسا سفاکانہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کا تصور بھی کوئی مہذب معاشرہ نہیں کر سکتا اور اس معاملے کا یہ پہلو اور بھی توجہ طلب ہے کہ عالمی برادری کے اکثر حلقے دہلی کے اس جارحانہ طرز عمل سے پوری طرح آگاہی رکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
ایسے میں اس عالمی اور بھارتی بے حسی کے تناظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کے بالا دست طبقات نے تاریخ سے شاید کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ گویا
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسمان کیوں ہو !
دوسری جانب ہر باخبر حلقہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ تقریباً دو ہفتے قبل 25 مئی کو افغان نیشنل آرمی کے 19 سے زائد فوجی اہلکار اپنی ہی حلیف نیٹو فورسز کی بمباری کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 31 شدید زخمی ہوئے ۔ توجہ طلب امر ہے کہ افغان صوبے ’’ قندوز ‘‘ کے علاقے ’’ تلوکی ‘‘ اور ’’ ملا سردار ‘‘ میں افغان فورسز طالبان کے خلاف آپریشن کر رہی تھیں جب انھوں نے نیٹو فورسز سے مدد مانگی اور کہا کہ طالبان کے علاقے کو ٹارگٹ کیا جائے مگر نشانے اور اندازے کی غلطی سے نیٹو کے جنگی طیاروں نے افغان فورسز کو ہی نشانہ بنا ڈالا ۔ واضح رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری واقعہ نہیں بلکہ افغانستان میں اس قسم کی باتیں لگ بھگ روز مرہ کا معمول ہیں ۔ یاد رہے کہ افغان حکومت اور نیٹو نے اس واقعے کی سنگینی کے پیشِ نظر اسے خبروں میں آنے سے روک دیا تھا ۔ اس کے علاوہ اس سلسلے کی تازہ کڑی کے طور پر گیارہ جون کو افغان صوبے ’’ ہلمند ‘‘ میں بالکل اسی طرح امریکی فوجی طیارے کی بمباری میں 3 افغان فوجی ہلاک جبکہ 2 زخمی ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے واقعات پر کسی حد تک افسوس ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔
علاوہ ازیں پاک سپہ سالار نے بھارتی جارحیت کیخلاف کشمیریوں کی جرات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلئے حمایت جاری رکھیں یاد رہے کہ جنرل باجوہ نے کہا کہ بھارتی فوج جتنے مرضی محاذ کھول لے پاک فوج ہر جارحیت کا بھر پور جواب دینے کی اہل ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ پاک فوج وطن عزیز کو درپیش دفاعی اور سلامتی چیلنجز سے آگاہ ہے اور ہر قسم کی دہشتگردی کو شکست دینے کیلئے پُر عز م ہے اور ہندوستان کی ہر مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے جنوبی ایشیائی خطے کی بد قسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تمام تر کوششوں اور خواہشات کے باوجود دہلی کا حکمران ٹولہ اپنی دیرینہ منفی روش ترک کرنے کے لئے آمادہ نہیں اور ہر سطح پر دہلی نے سازشوں کا مکروہ جال بچھا رکھا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو بھی جواب میں بھارتی حکمرانوں کو سبق سکھانے کے لئے وقتاً فوقتاً منہ توڑ جواب دینا پڑتا ہے ۔ حالانکہ اس بات سے بھلاکسے آگاہی نہیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام کے خلاف مظالم کا ایسا سفاکانہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کا تصور بھی کوئی مہذب معاشرہ نہیں کر سکتا اور اس معاملے کا یہ پہلو اور بھی توجہ طلب ہے کہ عالمی برادری کے اکثر حلقے دہلی کے اس جارحانہ طرز عمل سے پوری طرح آگاہی رکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
ایسے میں اس عالمی اور بھارتی بے حسی کے تناظر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کے بالا دست طبقات نے تاریخ سے شاید کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ گویا
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسمان کیوں ہو !
بار ہ جون کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )