Newspaper Article 01/12/2014
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اٹھائیس نومبر کو تمام بھارتی صوبوں کے پولیس سربراہوں کے انچاسویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایس آئی پر الزام لگایا ہے کہ وہ بھارت میں شدت پسندی کو فروغ دینے کی تمام کاروائیوں میں ملوث ہے۔
دوسری جانب بیس نو مبر کو وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور اس کے قومی اداروں کے خلاف بھارتی الزام تراشی دراصل ہندوستان کی جانب سے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی شعوری کوشش کا حصہ ہے انہوں نے اس موقف کا اظہا ر کشمیر کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کیا مبصرین نے پاکستانی سربراہ حکومت کی اس رائے سے مکمل اتفاق کرتے کہا ہے کہ ایک عرصہ سے پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی بھارتی حکمرانوں کے حواسوں پر سوار ہے ،بھارت میں ہونے والے ہر ناخوش گوار واقعے کی ذمہ داری دہلی سرکار پاکستان پر ڈالنا اپنی پیدائشی ذمہ داری سمجھتی ہے ،اگر بھارتی صوبے گجر ات میں طاعون کی وبا پھیلی تو اس کے لیے بھی بھارت نے آئی ایس آئی کو مودر الزام ٹھہرایا ، ہماچل پردیش میں برفانی تودہ گرا تو اس کے لیے بھی پاکستانی کندھے تلاش کیے گئے تبھی تو بھارتی اعتدال پسند حلقے کہتے ہیں کہ اگر کسی میونسپلٹی کے نلکے میں پانی نہ آئے یا کوئی ٹرین چند گھنٹے لیٹ ہوجائے تو بھی بھارت سرکار یہی کرتی ہے
بہرحال اسی بھارتی روش کی مثال چند ہفتے قبل سامنے آئی جب بھارتی اخبار ’’دکن کرانیکل‘‘ وغیرہ کے ذریعے یہ بات پھیلائی گئی کہ پاک ادارے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھا گوت پر حملے اور بھارت کے مختلف حصوں میں تشدد کی کوشش کر رہے ہیں ۔ماہرین کے مطابق اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بی جے پی اور کانگرس کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنی بد اعمالیوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے ہر نا خوشگوار واقعہ کا الزام پاکستان کے سر مٹرھ دیتی ہیں۔ اور یوں وزیراعظم نواز شریف کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ بھارتی واویلا دراصل اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے ۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی کے طور پر راجستھان کے موجودہ گورنر اور یوپی کے سابق مکھیہ منتری کلیان سنگھ نے فرمایا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت میں پاکستان ملوث تھا اور کچھ پاکستانیوں نے ہجوم میں داخل ہوکر چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کر دی تھی
یہ احمقانہ مگر شر انگیر بیان دینے والا اگر کوئی عام حیثیت کا مالک ہوتا تو اس کی یادہ گوئی سے صرف نظر کیا جا سکتا تھا مگر شریمان کلیان سنگھ بھارت کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعظم رہ چکے ہیں بلکہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت کلیان سنگھ ہی یوپی کے وزیراعلی تھے اور اسی وجہ سے ان کی حکومت بر خواست کی گئی تھی کہ انہوں نے نہ صر ف ہندو جونیوں کو اس کام پر اکسایا بلکہ خود ذاتی طور پر اس مذموم عمل کا حصہ بنے۔ کلیان سنگھ نے اپنے اس بیان سے جس پستی کا ثبوت دیا ہے اس نے ہر ذی شعور انسان کو حیران بھی کیا ہے اور پریشان بھی ،اعتدال پسند حلقوں کو حیرانی اور پریشانی اس بات کی ہے کہ بھارت کے ایک ارب چھبیس کروڑ انسانوں کی قسمت کے مالک کیسے کیسے شہ دماخ بنے بیٹھے ہیں جنہیں انسانیت اور اخلاقی قدروں سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں
وگرنہ کسے علم نہیں کہ چند برس پہلے جب کلیان سنگھ نے بی جے پی چھوڑ کے اپنی الگ جماعت بنا لی تھی تو موصوف نے کھل کر اعتراف کیا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کی سازش بی جے پی اور سنگھ پر یوار کی اعلی ترین قیادت نے تیار کی تھی اور اس سلسلے میں دہلی میں واقع آر ایس ایس کے ہیڈ کواٹر ’’جھنڈے والی بلڈنگ ‘‘میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں اس سازش کی تمام تفصیلات طے کی گئی تھیں اور واجپائی ، ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور کلیان سنگھ نے اس میٹنگ میں بی جے پی کی نما ئندگی کی تھی جبکہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے اہم رہنما بھی اس میٹنگ میں شامل تھے۔
اب یہ بیان دینے والے خود کلیان سنگھ اس وقت یوپی کے وزیر اعلی تھے اور کانگرس کے نر سہما راؤ بھارت کے وزیراعظم ۔ماہرین نے کہا ہے کہ ہندو جنوینوں کی جانب سے یہ بیان پہلی بار سامنے نہیں آیا بلکہ جنوری 2004 میں تب آر ایس ایس کے سربراہ’’ سودرشن‘‘ نے بھی یہ ہی الزام لگایا تھا تب بھارت کے ایک ممتاز اخبار’’ جن ستا ‘‘نے ایک کارٹون صفحہ اول پر چھاپا تھا جس میں پر وزیر اعظم واجپائی اپنے نائب ایڈاونی کو ٹیلی فون پر بتا رہے تھے کہ ایڈاونی جی فوری طور پر سودرشن اور بال ٹھاکر ے سے ملیں اور انہیں سمجھائیں کہ وہ لوگ کچھ ہوش کے ناخن لیں وہ احمق ٹولہ کہیں یہ بیان بھی جاری نہ کردیں کہ 11اور13 مئی 1998 کو ’’پو کھران‘‘ کے مقام پر بھارت نے جو ایٹمی دھماکے کیے تھے وہ بھی پاکستان اور آئی ایس آئی نے کرائے تھے اگر ایسا ہوا تو ہمارے پلے کیا باقی بچے گا ‘‘
بہر کیف یہ ذہنیت صرف بی جے پی تک محدود نہیں بلکہ بھارت کے اکثر حکمران پٹڑی سے اتر جاتے ہیں اور بے سروپا ہانکنے لگتے ہیں مگر اب بھارتی عوام شائد اتنے سادہ بھی نہیں رہے جو ایسی واہی تباہی پر یقین کریں ۔امید کی جانی چاہیے کہ بھارتی حکمران بدلتے وقت سے کچھ سبق حاصل کریں گئے اور اپنی دیرینہ منفی روش سے باز آجائیں گئے اگرچہ اس کا امکان کم ہے ۔
یکم دسمبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )