Newspaper Article 13/12/2015
دنیا بھر میں دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اسی پس منظر میں ماہرین کی رائے ہے کہ یوں تو دنیا کے ہر ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ کسی نہ کسی حد تک جاری ہے مگر اس ضمن میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارت کی صورتحال یقیناًبد ترین ہے ۔ ہندوستان میں چائلڈ لیبر، خواتین کے خلاف ہر قسم کی زیادتیاں اور مذہبی اقلیتوں کے شہری حقوق کی پامالی آرڈر آف دی ڈے بن چکی ہیں ۔ ایک جانب مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں گم نام قبریں دریافت ہوتی ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ ریاست کے نہتے عوام کے خلاف قابض بھارتی افواج نے آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے نام پر دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور یہ سلسلہ محض مقبوضہ ریاست تک محدود نہیں بلکہ شمال مشرقی بھارت کے سبھی بھارتی صوبوں ناگا لینڈ ، میزو رام ، منی پور ، تری پورہ ، میگھالہ ، ارونا چل پردیش وغیرہ میں بھی آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے نام پر انڈین آرمی کو کھلی چھٹی دی جا چکی ہے اور دہلی کی اسی ریاستی دہشتگردی کے خلاف اروم شرمیلا نے گذشتہ چودہ برس سے تا دم مرگ بھوک ہڑتال کر رکھی ہے مگر بھارت کا برہمنی انصاف ملاحظہ ہو کہ اتنے طویل عرصے سے یہ مظلوم خاتون سلاخوں کے پیچھے بند ہے اور اس کو زبردستی ناک کے راستے غذا فراہم کی جاتی ہے ۔
ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی صحت ، تعلیم اور غذائیت کی کمی عام بھارتی شہریوں کا مقدر بن چکی ہے ۔ گذشتہ پندرہ برس میں سوا تین لاکھ سے زیادہ بھارتی کسان اپنی حکومت کے ان غیر انسانی رویوں کے ہاتھوں تنگ آ کر خود اپنے ہاتھوں موت کو گلے لگا چکے ہیں ۔ بھارتی معاشرت میں عدم برداشت اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ تحریر ، تقریر ، کھانے پینے اور اپنی مرضی کی رہائش جیسے بنیادی حقوق سے بھی مذہبی اقلیتوں کو محروم کر دیا گیا ہے ۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش ، اڑیسہ ، چھتیس گڑھ اور جھاکھنڈ کے صوبوں میں اکثر بچیوں کو پیدا ہوتے ہیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے اور ان معصوم روحوں کو دودھ کے بھرے ٹب میں ڈبو کر مار دیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود دہلی کے حکمران خود کو جمہوریت اور سیکولر اقتدار کا چیمپئن قرار دیں تو اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی ۔
بل گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے چند ماہ پہلے جو رپورٹ جاری ہوئی ہے اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بل گیٹس کی اہلیہ کی زیر قیادت ایک تحقیقی سروے میں یہ امر سامنے آیا ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ اعتدال پسند تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ زندگی کے تمام شعبوں میں عام ہندوستانی انسانی حقوق کے حوالے سے بہت مظالم سہہ رہے ہیں مگر اس ضمن میں سب سے زیادہ نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف یہ مکروہ سلسلہ جاری ہے ۔ بھارتی معاشرت میں اپنے ہی ہم مذہب اچھوت ہندوؤں کو تو اس قدر مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جس کا تصور بھی کوئی نارمل انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا ۔ تقریباً چوبیس کروڑ کی تعداد پر مشتمل یہ بد قسمت اچھوت اس قدر پس رہے ہیں کہ جس کے تذکرے کے لئے بھی مناسب الفاظ ڈھونڈ پانا مشکل ہیں نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔
ہندو مذہب کی عبادت گاہوں یعنی مندروں تک میں نچلی ذات کے ہندوؤں کا داخلہ ممنوع ہے ۔ محض دو ہفتے قبل یعنی نومبر کے تیسرے ہفتے میں بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کی خاتون رکن ’’ کماری سلیجا ‘‘ نے انکشاف کیا کہ چند برس پیشتر جب وہ صوبہ گجرات میں واقع ’’ دوارکا ‘‘ مندر ( اس مندر کا پرانا نام سومنات ہے ) میں پوجا کے لئے گئیں تو داخلے سے پہلے مندر کے مرکزی دروازے پر موجود پجاری نے ان کی ذات پوچھی حالانکہ تب وہ مرکزی وزیر تھیں ۔ موصوفہ نے چھبیس نومبر 2015 کو بھارتی پارلیمنٹ میں آئین سے وابستگی کے موضوع پر بحث کے دوران یہ خوف ناک انکشاف کرتے ہوئے رقت آمیز لہجے میں کہا کہ ’’ میں اچھوت ضرور ہوں لیکن بہر حال ہندو ہوں اور اگر مرکزی وزیر ہوتے ہوئے میرے ساتھ یہ سلوک ہو سکتا ہے تو عام اچھوتوں کی حالت زار کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔ جان کار حلقوں کے مطابق چھوت چھات کے اس نظام کو ہندو دھرم کے آئین کا درجہ حاصل ہے اس لئے اس میں بہتری کے امکانات آنے والے دنوں میں بھی نظر نہیں آتے لہذا ضرورت اس امر کی ہے انسانی حقوق کا عالمی دن مناتے ہوئے دنیا بھر کے انسان دوست حلقے بھارت میں نسلی بنیادوں پر ہو رہے اس ظلم عظیم کے خلاف وہی طرز عمل اپنائیں جیسا کہ پچیس سال پہلے تک جنوبی افریقا کی سابقہ سفید فام حکومت کی نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے خلاف دنیا بھر نے اجتماعی بائیکاٹ کا راستہ اپنا کر کیا تھا۔دس دسمبر کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )
ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھی صحت ، تعلیم اور غذائیت کی کمی عام بھارتی شہریوں کا مقدر بن چکی ہے ۔ گذشتہ پندرہ برس میں سوا تین لاکھ سے زیادہ بھارتی کسان اپنی حکومت کے ان غیر انسانی رویوں کے ہاتھوں تنگ آ کر خود اپنے ہاتھوں موت کو گلے لگا چکے ہیں ۔ بھارتی معاشرت میں عدم برداشت اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ تحریر ، تقریر ، کھانے پینے اور اپنی مرضی کی رہائش جیسے بنیادی حقوق سے بھی مذہبی اقلیتوں کو محروم کر دیا گیا ہے ۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش ، اڑیسہ ، چھتیس گڑھ اور جھاکھنڈ کے صوبوں میں اکثر بچیوں کو پیدا ہوتے ہیں زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے اور ان معصوم روحوں کو دودھ کے بھرے ٹب میں ڈبو کر مار دیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود دہلی کے حکمران خود کو جمہوریت اور سیکولر اقتدار کا چیمپئن قرار دیں تو اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی ۔
بل گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے چند ماہ پہلے جو رپورٹ جاری ہوئی ہے اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بل گیٹس کی اہلیہ کی زیر قیادت ایک تحقیقی سروے میں یہ امر سامنے آیا ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ اعتدال پسند تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ زندگی کے تمام شعبوں میں عام ہندوستانی انسانی حقوق کے حوالے سے بہت مظالم سہہ رہے ہیں مگر اس ضمن میں سب سے زیادہ نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف یہ مکروہ سلسلہ جاری ہے ۔ بھارتی معاشرت میں اپنے ہی ہم مذہب اچھوت ہندوؤں کو تو اس قدر مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جس کا تصور بھی کوئی نارمل انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا ۔ تقریباً چوبیس کروڑ کی تعداد پر مشتمل یہ بد قسمت اچھوت اس قدر پس رہے ہیں کہ جس کے تذکرے کے لئے بھی مناسب الفاظ ڈھونڈ پانا مشکل ہیں نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔
ہندو مذہب کی عبادت گاہوں یعنی مندروں تک میں نچلی ذات کے ہندوؤں کا داخلہ ممنوع ہے ۔ محض دو ہفتے قبل یعنی نومبر کے تیسرے ہفتے میں بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کی خاتون رکن ’’ کماری سلیجا ‘‘ نے انکشاف کیا کہ چند برس پیشتر جب وہ صوبہ گجرات میں واقع ’’ دوارکا ‘‘ مندر ( اس مندر کا پرانا نام سومنات ہے ) میں پوجا کے لئے گئیں تو داخلے سے پہلے مندر کے مرکزی دروازے پر موجود پجاری نے ان کی ذات پوچھی حالانکہ تب وہ مرکزی وزیر تھیں ۔ موصوفہ نے چھبیس نومبر 2015 کو بھارتی پارلیمنٹ میں آئین سے وابستگی کے موضوع پر بحث کے دوران یہ خوف ناک انکشاف کرتے ہوئے رقت آمیز لہجے میں کہا کہ ’’ میں اچھوت ضرور ہوں لیکن بہر حال ہندو ہوں اور اگر مرکزی وزیر ہوتے ہوئے میرے ساتھ یہ سلوک ہو سکتا ہے تو عام اچھوتوں کی حالت زار کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔ جان کار حلقوں کے مطابق چھوت چھات کے اس نظام کو ہندو دھرم کے آئین کا درجہ حاصل ہے اس لئے اس میں بہتری کے امکانات آنے والے دنوں میں بھی نظر نہیں آتے لہذا ضرورت اس امر کی ہے انسانی حقوق کا عالمی دن مناتے ہوئے دنیا بھر کے انسان دوست حلقے بھارت میں نسلی بنیادوں پر ہو رہے اس ظلم عظیم کے خلاف وہی طرز عمل اپنائیں جیسا کہ پچیس سال پہلے تک جنوبی افریقا کی سابقہ سفید فام حکومت کی نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے خلاف دنیا بھر نے اجتماعی بائیکاٹ کا راستہ اپنا کر کیا تھا۔دس دسمبر کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )