Skip to content Skip to footer

بلوچستان ۔۔ بیرونی پراپیگنڈہ اور حقائق

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

ایک جانب گذشتہ چند ہفتوں سے بلوچستان کے علاقے ’’خضدار‘‘ میں مبینہ اجتماعی قبر کے حوالے سے ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں طرح طرح کے فسانے تراشے جا رہے ہیں دوسری طرف چند روز قبل امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ آزاد بلوچستان کی حمایت امریکہ کی پالیسی نہیں ہے۔امریکہ پاکستان کی علاقائی سا لمیت کا احترام کرتا ہے اور امریکی کانگرس کے رکن ’’لوئی رونٹر‘‘ کی تجویز ان کی ذاتی رائے ہے جس کو امریکی انتظامیہ کی تائید کسی صورت بھی حاصل نہیں۔مبصرین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بد قسمتی سے بھارت اور امریکہ کی حکومتوں کے قول و فعل میں بہت زیادہ تضادات موجود ہیں ۔ایک جانب انھوں نے بلوچستان کشمیر اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں ہو رہے شدت پسندی کے واقعات کی بابت عجیب طرح کا پراپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے تو دوسری طرف خود کو اس سے بری الذمہ قرار دیتے نہیں تھکتے۔
مثال کے طور پر بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے کہا ہے کہ پاکستان LOC کی بار بار خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔موصوف نے یہ الزام تراشی 11فروری 2014 کو دہلی میں منعقدہ سیمینار بعنوان’’بارڈر مینجمنٹ‘‘میں اپنے خطاب کے دوران کی۔انھوں نے اس موقع پر بنگلہ دیش اور نیپال کے عوام اور حکومتوں کو بھی بالواسطہ طور پر اس امر کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ بھارت اور کشمیر میں عدم استحکام کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔مبصرین نے بھارتی فوج کے سربراہ کی اس روائتی الزام تراشی کو حقائق کے منافی قرار دیتے کہا کہ پاکستان پر الزام تراشی کی بجائے بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا کرنی چاہیے تبھی تو انسان دوست حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یوں تو دنیا کے سبھی ملکوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری ہے۔
مگر اس ضمن میں بھارت ،امریکہ اور اسرائیل کا ریکارڈ انتہائی قابلِ مذمت ہے اور خود اسرائیلی حکام کے مطابق تو اس معاملے میں بھارت ان سے بھی بہت آگے ہے تبھی تو اسرائیل کی ڈیفننس فورسز کے ’’انٹر نیشنل لاء ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے سربراہ ’’ڈینیل ریزنر‘‘DANIEL REISNER نے 9 اگست 2010 کو اپنی تحریر میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے ایک بھارتی میجر جنرل نے اسرائیلوں کو تلقین کی تھی کہ وہ فلسطینیوں پر قابو پانے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کی حکمتِ عملی پر عمل کر لیں تو انہیں خاصی کامیابی حاصل ہو گی۔
ظاہر ہے یہ ایسا امر ہے جس کے بارے میں مختلف نقطہ نظر ہو سکتے ہیں مگر اس بابت غالباً کسی کو بھی شبہ نہیں کہ بھارتی افواج نہتے کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے اور ہرآنے والے دن کے ساتھ اس مکروہ سلسلے میں اضافہ ہو رہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ اس حوالے سے خاطر خواہ ردِعمل ظاہر کرنے میں بڑی حد تک ناکام ہے۔
یہاں تک کہ اپنے گذشتہ دورہ بھارت کے دوران امریکی صدر نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر اشارتاً بھی مناسب نہیں جانا ۔اس کے باوجود امریکی حکام حیرانی ظاہر کر رہے ہیں کہ اسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں خاص طور پر کیوں امریکہ مخالف جذبات عوامی سطح پر پائے جاتے ہیں ۔اس حوالے سے امریکی حکمران عوامی جمہوریہ چین کی مثبت پالیسیوں سے بھی کوئی سبق حاصل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔امید کی جانی چاہیے کہ بین الاقوامی برادری بلوچستان کی بابت بے بنیاد پراپیگنڈہ ترک کر کے کشمیر کے تنازعہ کے منصفانہ حل کی جانب خاطر خواہ پیش رفت کرے گی۔
اس تمام صورتحال میں امریکی صدر اور پوری امریکی قوم پر دوہری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ واقعتا انھیں انسانی اور اخلاقی حقوق کا حقیقی احساس ہے اور وہ اس ضمن میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔

(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements