Newspaper Article 09/10/2014
یبھارتی فوج نے ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر گذشتہ چند روز سے کھلی جارحیت کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس میں سولہ سے زائد بے گناہ شہری شہید جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں ۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی مندوب مسعود خان نے اس بھارتی جارحیت پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ دہلی سرکار کو اشتعال انگیزی سے باز کریں۔دوسری جانب وزیرِ اعظم نے اس صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ۱۰ اکتوبر کو قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے علاوہ چیئر مین جوائنٹ چیفس کمیٹی بھی شرکت کریں گے ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ اس بھارتی اشتعال انگیزی کے ممکنہ محرکات درج ذیل ہیں ۔مودی کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران ایک جانب امریکی صدر سے ہونے والی ملاقات نے بالواسطہ طور پر موصوف کو شہ دی ۔دوسری جانب ۲۸ ستمبر کو نیو یارک میں اسرائیلی وزیرِ اعظم ’’نیتن یاہو ‘‘ نے مودی کو کشمیر میں اسرائیلی ماڈل اپنانے پر اکسایا۔علاوہ ازیں چونکہ گذشتہ ساڑھے چار ماہ کی حکومت کے دوران بھارتی عوام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق اقتصادی میدان میں مودی حکومت کچھ نہیں کر سکی اور اسی وجہ سے وہ اتر کھنڈ، بہار،راجستھان اور یو پی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلسل ہاری ہے اور اب ۱۵ اکتوبر کو ۲۸۸ رکنی مہاراشٹر کی صوبائی اسمبلی اور ۹۰ رکنی ہریانہ اسمبلی کے عام انتخابات ہو رہے ہیں لہذا ان دونوں صوبوں میں جیتنے کی غرض سے مودی سرکار نے پاکستان کے خلاف حالیہ اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کیا ہے اور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید سنگینی آ سکتی ہے علاوہ ازیں دو ماہ بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی کٹھ پتلی ریاستی اسمبلی کے عام چناؤ ہونے والے ہیں ۔وہاں بھی ہندو ووٹ کے حصول کی خاطر مودی کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی جدو جہد سے بھلا کون واقف نہیں۔اس کے محرکات و عوامل ساری دنیا پر واضح ہیں یہ الگ بات ہے کہ مغربی دنیا کے اکثر ممالک اپنے وقتی مفادات کے پیش نظر ان مظالم سے چشم پوشی کر رہے ہیں
یوں تو بھارت نے اس آزادی جدو جہد کی اصل شکل کو مسخ کے لے مختلف محاذوں پر کثیر الجتہی پراپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے،مگر بھارت کی اس مذموم حکمت علمی کا بھارتی پراپیگنڈہ کا مرکزی نقطہ ہے کہ کشمیری حریت پسندوں کو کرائے کا لڑاکا قرار دے کر بیرونی دنیا کو گمراہ کیا جائے اور یہ تاثر پختہ کیا جائے کہ کشمیر میں جاری تحریک حریت صرف پاکستان کی سرپرستی کی وجہ سے جاری ہے۔
اگرچہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ کوئی ملک اپنے بل بوتے پر کسی دوسرے ملک میں اتنے طویل عرصے تک ایسی منظم مہم چلا سکتا ہے اور کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے؟علاوہ ازیں کشمیر کے علاوہ بھارت کے شمال،مشرقی علاقوں کے تمام صوبوں میں آزادی کی مسلح تحرکیں عرصے دراز سے جاری ہیں اور کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ بھارت کے اپنے ذرائع ابلاغ یہ خبر دے رے نہ ہوں کہ تری پور، میگھالہ ،ناگا لینڈٖ،منی پور اور آسام میں درجنوں بھارتی فوجی شدت پسندوں کا نشانہ بن رہے ہوں ۔
ایسی صورت حال میں شائد باہر کی دنیا کو یہ تاثر دینا ممکن بھی نہیں کہ یہ ساری تحرکیں پاکستان کی شہ پر جاری ہیں کیونکہ پاکستان کی ۶۷ سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے ساری دنیا خصوصا ہمسایہ ممالک سے ہمیشہ بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن برائے بحث ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ پاکستان بھارت کے سیاسی عدم استحکام کا خواہا ں ہے تو یہ امر قابل توجہ ہے کہ کیا پاکستان اتنے وسائل کامالک ہے کہ بھارت جیسے اتنے بڑے ملک میں اتنے وسیع پیمانے پر بدامنی پیدا کرسکے اور اسے اتنے طویل عرصے تک جاری کا اہل ہو،بہر کیف بھارت کشمیری مجاہدین کو کرائے کا باغی قرار دے کے جس بے بنیاد پراپیگنڈے کا مرتکب ہو ررہاہے، زمینی حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔حالات و واقعات قدم قدم بھارت کے ان دعوؤں کو غلط ثابت کرتے ہیں ۔
اس ضمن میں چند روز قبل بھارتی صحافی اند ورما نے بھارت کے اس الزام کی ترید کی ہے ۔حالانکہ اندر ورما پاکستان کے خلاف شدید جذبات رکھنے والی شہرت کے حامل ہیں ۔مگر دانستہ یا نا دانستہ سچ اپنی حقانیت منوا ہی لیتا ہے۔تبھی تو موصوف نے بھارت کے کثیر الاشاعت روزنامے میں اپنے مضمون بعنوان ’’گہرے سنکٹ میں پھنستا کشمیر ‘‘میں لکھا ہے کہ نئی دہلی کے باشعور حلقوں میں یہ احساس بیدار ہونے لگا ہے کہ مودی کی آمد کے بعد کشمیر کے حالات اور بھی بدتر ہوگئے ہیں کیونکہ کہ پہلے شدت پسندوں کی کاروائیاں صرف سویلین علاقوں تک محدود تھیں مگر اب ان کا نشانہ براہ راست فوجی بن رہے ہیں ۔اندر ورما جیسے سینیئر صحافی کی اس تحریر سے دوسری باتوں کی طرح یہ بات بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کون سا فریق کرائے کا فوجی کہلانے کا مستحق ہے اور شائد یہ ہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کثرت تعداد کے باوجود نہتے کشمیریوں پر قابو نہ پا سکی کیونکہ کرائے کے فوجیوں اور کسی مقصد کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں جو فرق ہو تا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں
توقع کی جانی چاہیے کہ امریکہ سمیت سبھی عالمی قوتیں بھارت کو لگام ڈالنے کی کوشش کریں گی وگرنہ علاقائی اور عالمی امن کسی بڑے حادثے سے دو چار ہو سکتا ہے ۔
اکتوبر ۱۰ کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)