Newspaper Article 08/08/2017
اس امر سے سبھی آگاہ ہیں کہ بھارت میں ہر آنے والے دن کے ساتھ ہر شعبے میں ہندو جنونی اپنے پنجے نہ صرف گاڑ چکے ہیں بلکہ اپنی اس گرفت کو ہر طرح سے مضبوط کر رہے ہیں ۔ اور لگتا ہے کہ ہندوستان کا نام نہاد سیکولر ازم آنے والے کچھ عرصے میں پوری طرح سے قصہ پارینہ بن جائے گا ۔
اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی کے طور پر ’’ آر ایس ایس ‘‘ نے ہندوستان کی صدارت اور نائب صدارت جیسے اہم ترین مناصب پر بھی قبضہ کر لیا ہے ۔ اور ہندوستانی صدارت جیسی مسند پر 71سالہ ’’ رام ناتھ کوِند ‘‘ فائز ہو چکے ہیں ۔ جبکہ 5 اگست کو نائب صدارت کے انتخابات میں کٹر ذہنیت کے مالک ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے ونکیا نائیڈو کا براجمان ہونا یقینی ہے ۔کانگرس اتحاد کی جانب سے نائب صدارت کے امیدوار کے طور پر مہاتما گاندھی کے پوتے ’’ گوپال کرشن گاندھی ‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے ۔
یاد رہے کہ ’’رام ناتھ کوِند‘‘ ذہنی طور پر ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے ا نتہائی قریب ہیں اور خود کو پیدائشی رام سیوک مانتے ہیں اور اس امر کا کھلے عام فخریہ اظہار کرتے ہیں کہ ان کا مقصد حیات رام راجیے اور اکھنڈ بھارت کا قیام ہے ۔ ان کی ہر ممکن سعی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ’’ ڈاکٹر کیشو ہیگواڑ ‘‘ ( ’’ آر ایس ایس ‘‘ کا بانی) کے پوری دنیا پر ہندو راج کے سپنے کو عملی جامہ پہنا پائیں ۔
دوسری جانب’’ ونکیا نائیڈو‘‘ کو بھارت کا نائب صدر بنایا جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ وہ چند روز قبل تک وزیر اطلاعات و نشریات کے علاوہ ’’اربن ڈیولپمنٹ ‘‘ کے وزیر تھے ۔ علاوہ ازیں موصوف 2002 سے 2004 تک بی جے پی کے صدر بھی رہے ۔
باخبر حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ نائیڈو ان پارٹی لیڈروں میں شامل تھے جنھوں نے گجرات کی نسل کشی کے بعد مودی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کی مخالفت کی تھی ۔ مزید یہ کہ لوک سبھا الیکشن سے پہلے مودی کو آگے بڑھانے کی مہم میں بھی نائیڈو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ ونکیا نائیڈو کو نائب صدر کا الیکشن لڑنے کے لئے بی جے پی نے جو ٹکٹ دیا ہے ، اس سے موہن بھاگوت کا یہ خواب پوراہو گیا کہ بھارت کے تمام کلیدی عہدوں پر آر ایس ایس کے کارندے متعین ہو جائیں ۔ نائیڈو کا انتخاب اس اعتبار سے اہم ہے کہ جن لوگوں کو میدان میں اتارنے کی بات ہو رہی ہے ان میں نجمہ ہیبت اللہ بھی شامل تھیں مگر اس کے نظریات سے درکنار انھیں صرف اس وجہ سے رد کر گیا کیونکہ وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ ’’ابوالکلام آزاد‘‘ کی نواسی بھی ہیں۔ مگر بھلے ہی کوئی مسلمان شخصیت بھارت نوازی میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفادار ثابت ہو ، مگر اس کامسلمان ہونا ایسا منفی پہلو ہے جو ’’ بی جے پی ‘‘ اور ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے لئے قطعاً ناقابلِ قبول ہے ۔
واضح ہو کہ ’’ موہن بھاگوت ‘‘ کئی مرتبہ کھلے عام اس موقف کا اظہار کر چکے ہیں کہ 2025 یعنی ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے قیام کے سو سال پورے ہونے سے پہلے پورے بھارت پر RSS کی بلا شرکت غیرے حکومت ہو گی اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اگر بھارت میں رہنا ہے تو انھیں ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے نظریات کو قبول کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنا ہو گی ۔
’’ آر ایس ایس ‘‘ اور ’’ بی جے پی ‘‘ کے جنونی ہندوؤں کا یہ موقف بذاتِ خود ہندوستان کے سیکولر ازم پر ایسا طمانچہ ہے جب پر شاید مزید کچھ نہ کہنا ہی بہتر تبصرہ ہو گا !ستائیس جولائی کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )
اسی سلسلے کی تازہ ترین کڑی کے طور پر ’’ آر ایس ایس ‘‘ نے ہندوستان کی صدارت اور نائب صدارت جیسے اہم ترین مناصب پر بھی قبضہ کر لیا ہے ۔ اور ہندوستانی صدارت جیسی مسند پر 71سالہ ’’ رام ناتھ کوِند ‘‘ فائز ہو چکے ہیں ۔ جبکہ 5 اگست کو نائب صدارت کے انتخابات میں کٹر ذہنیت کے مالک ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے ونکیا نائیڈو کا براجمان ہونا یقینی ہے ۔کانگرس اتحاد کی جانب سے نائب صدارت کے امیدوار کے طور پر مہاتما گاندھی کے پوتے ’’ گوپال کرشن گاندھی ‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے ۔
یاد رہے کہ ’’رام ناتھ کوِند‘‘ ذہنی طور پر ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے ا نتہائی قریب ہیں اور خود کو پیدائشی رام سیوک مانتے ہیں اور اس امر کا کھلے عام فخریہ اظہار کرتے ہیں کہ ان کا مقصد حیات رام راجیے اور اکھنڈ بھارت کا قیام ہے ۔ ان کی ہر ممکن سعی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ’’ ڈاکٹر کیشو ہیگواڑ ‘‘ ( ’’ آر ایس ایس ‘‘ کا بانی) کے پوری دنیا پر ہندو راج کے سپنے کو عملی جامہ پہنا پائیں ۔
دوسری جانب’’ ونکیا نائیڈو‘‘ کو بھارت کا نائب صدر بنایا جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ وہ چند روز قبل تک وزیر اطلاعات و نشریات کے علاوہ ’’اربن ڈیولپمنٹ ‘‘ کے وزیر تھے ۔ علاوہ ازیں موصوف 2002 سے 2004 تک بی جے پی کے صدر بھی رہے ۔
باخبر حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ نائیڈو ان پارٹی لیڈروں میں شامل تھے جنھوں نے گجرات کی نسل کشی کے بعد مودی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کی مخالفت کی تھی ۔ مزید یہ کہ لوک سبھا الیکشن سے پہلے مودی کو آگے بڑھانے کی مہم میں بھی نائیڈو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ ونکیا نائیڈو کو نائب صدر کا الیکشن لڑنے کے لئے بی جے پی نے جو ٹکٹ دیا ہے ، اس سے موہن بھاگوت کا یہ خواب پوراہو گیا کہ بھارت کے تمام کلیدی عہدوں پر آر ایس ایس کے کارندے متعین ہو جائیں ۔ نائیڈو کا انتخاب اس اعتبار سے اہم ہے کہ جن لوگوں کو میدان میں اتارنے کی بات ہو رہی ہے ان میں نجمہ ہیبت اللہ بھی شامل تھیں مگر اس کے نظریات سے درکنار انھیں صرف اس وجہ سے رد کر گیا کیونکہ وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ ’’ابوالکلام آزاد‘‘ کی نواسی بھی ہیں۔ مگر بھلے ہی کوئی مسلمان شخصیت بھارت نوازی میں شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفادار ثابت ہو ، مگر اس کامسلمان ہونا ایسا منفی پہلو ہے جو ’’ بی جے پی ‘‘ اور ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے لئے قطعاً ناقابلِ قبول ہے ۔
واضح ہو کہ ’’ موہن بھاگوت ‘‘ کئی مرتبہ کھلے عام اس موقف کا اظہار کر چکے ہیں کہ 2025 یعنی ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے قیام کے سو سال پورے ہونے سے پہلے پورے بھارت پر RSS کی بلا شرکت غیرے حکومت ہو گی اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اگر بھارت میں رہنا ہے تو انھیں ’’ آر ایس ایس ‘‘ کے نظریات کو قبول کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنا ہو گی ۔
’’ آر ایس ایس ‘‘ اور ’’ بی جے پی ‘‘ کے جنونی ہندوؤں کا یہ موقف بذاتِ خود ہندوستان کے سیکولر ازم پر ایسا طمانچہ ہے جب پر شاید مزید کچھ نہ کہنا ہی بہتر تبصرہ ہو گا !ستائیس جولائی کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )