Newspaper Article 13/11/2014
چار نومبر کو بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اسرائیل کے دورے پر پہنچے تو وہاں ان کا خصوصی استقبال کیا گیا ۔ پروگرام کے مطابق موصوف نے 4 نومبر کی صبح کو ’’مناکو ‘‘ سے اسرائیل پہنچنا تھا مگر موسم کی خرابی کے باعث وہ 12 گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے ۔ اس وجہ سے پہلے سے طے شدہ پروگرام تو گڈ مڈ ہو گیا تھا مگر اسرائیلی وزیر اعظم’’نیتن یاہو ‘‘ نے انڈین ہوم منسٹر کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اپنی ساری مصروفیات ترک کر کے ان سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی ۔ اس کے بعد راج ناتھ سنگھ نے اگلے روز اسرائیل کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ’’ کوہن‘‘ اور اپنے ہم منصب سے ملاقات کر کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے ۔ با خبر ذرائع کے مطابق ان معاہدوں میں سر فہرست دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین پاکستان اور بھارت کے دیگر پڑوسی ممالک کے خلاف انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے نام پر نئی حکمت عملی مرتب کی گئی ۔ علاوہ ازیں اسرائیل نے بھارت میں اسلحہ سازی کے مشترک منصوبوں کے آغاز پر رضا مندی ظاہر کیا۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے 28 ستمبر کو نیویارک میں مودی اور اسرائیلی وزیر اعظم کے دوران خصوصی ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد ’’ نیتن یاہو ‘‘ نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ لا محدود اشتراک عمل کیا جائے گا۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ الفاظ استعمال کیے تھے ’’ سکائی از دی لِمٹ ان انڈیا اسرائیل ریلیشنز ‘‘۔
مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعاون کوئی نئی بات نہیں ۔ مگر اس کا عملی اظہار یقیناًایک ایسی پیش رفت ہے جس پر پاکستان اور دیگر امن پسند حلقوں کو بجا طور پر تشویش ہونی چاہیے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ 1992 میں دونوں ملکوں میں باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے ۔
اس کے بعد 1999 میں میں پاک بھارت مابین کارگل محاذ آرائی کے دنوں میں اسرائیل نے انڈین آرمی کی عملی امداد کی تھی ۔ اس کے بعد 2000 میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ’’ لعل کرشن ایڈوانی ‘‘ نے اسرائیل کا دورہ کیا جس کے بعد 2003 میں اسرائیلی وزیر اعظم ’’ ایرل شیرون ‘‘ ستمبر 2003 میں دورے پر بھارت آئے ۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج ۲۰۰۶ تا ۲۰۰۹ تک ’’ انڈو اسرائیلی پارلیمانی فرینڈ شپ سوسائٹی ‘‘ کی صدر رہیں اور 2008 میں انہوں نے اسی حیثیت سے اسرائیل کا دورہ کیا لہذا جب مئی 2014 میں مودی نے انہیں وزیر خارجہ مقرر کیا تو اسرائیلی حکومت اور میڈیا نے اس کو دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے حوالے سے نیک شگون قرار دیا تھا ۔ یوں بھی مودی کے جیتنے کے بعد غیر ملکی سربراہوں میں سب سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم ’’ نیتن یاہو ‘‘ نے انہیں ٹیلی فون پر مبارک باد دی تھی اور توقع ظاہر کی تھی کہ دونوں جانب کی نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے باہمی تعلقات کو شاندار فروغ حاصل ہو گا ۔
۲۰۰۷سے جون ۲۰۱۴ تک ’’شمون پیرز ‘‘اسرائیل کے صدر رہے ۔ وہ بھی 5 نومبر کو بھارتی دورے پر پہنچے اور انھوں نے وزیر اعظم مودی سے طویل مذاکرات کیے ۔ یاد رہے کہ اکانوے سالہ شمون پیرز دو بار اسرائیل کے وزیر اعظم، مختلف حکومتوں میں 12 مرتبہ وزیر رہے ۔ اس کے علاوہ 1959 سے 2007 تک مسلسل اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن رہے ۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ بھارت روس کے بعد اسرائیل سے سب سے زیادہ اسلحے کی خریداری کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ 1980 کے عشرے میں ایک بار ایک مرحلے پر اسرائیل اور بھارت نے مشترکہ طور پر پاکستان کے ایٹمی مراکز پر حملہ کرنے کی سازش رچی تھی جو پاکستان کے بروقت انتباہ کی وجہ سے عملی شکل نہ اختیار کر پائی ۔
امید کی جانی چاہیے پاکستان کے مقتدر حلقے اور سول سوسائٹی بھارت اور اسرائیل کی حالیہ قربت کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی حکمت عملی مرتب کرے گی کیونکہ اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وطن عزیز میں جاری مختلف نوع کی متشدد کاروائیوں کو مزید بڑھاوا دینے لئے بھارت اور اسرائیل مزید سازشیں رچ سکتے ہیں۔
بارہ نومبر نومبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )