Newspaper Article 29/10/2015
بھارت میں گذشتہ 17 ماہ سے مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ چند ہفتوں سے تو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے ۔ اسی پس منظر میں اکیس اکتوبر کو بھارت سے واپسی پر میڈیا سے بات کرتے ’’ پی سی بی ‘‘ کے چیئر مین ’’ شہر یار خان ‘‘ کا کہنا ہے کہ بھارت میں مٹھی بھر لوگ اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں ۔ شہریار خان ماضی میں 1990 تا 1994 پاکستان کے خارجہ سیکرٹری رہ چکے ہیں ۔ اس لئے ان کی جانب سے ایسا بیان عجیب سا لگتا ہے ۔ کیونکہ بھارت میں مٹھی بھر لوگ اگر اس سوچ کے حامل ہوتے تو ’’ بی جے پی ‘‘ چوتھی بار حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوتی ۔
وطن عزیز میں بھارت کے حوالے سے دو مکتبہ فکر پائے جاتے ہیں ۔ ایک بھاری اکثریت کے نزدیک بھارت پاکستان کا مخالف بلکہ دشمن ہے جبکہ دوسرے حلقے کی رائے اس کے بر عکس ہے ۔ بہر حال بھارت کو مخالف کہنے والے صحیح ہوں یا دوست قرار دینے والے ۔ اپنے دوست یا دشمن کے بارے میں کسی بھی فرد یا قوم کو مکمل آگاہی حاصل ہونی چاہیے ۔ اس کے سارے احوال ،خوبیوں اور خامیوں کا علم ہونا از بس ضروری ہے ۔ راقم کی رائے میں بھارت کے حوالے سے وطن عزیز میں اس بابت صورتحال تسلی بخش نہیں حالانکہ ہماری خارجہ ، دفاعی حتیٰ کہ داخلی پالیسیاں بھی بالعموم کسی نہ کسی طور بھارت کے طرز عمل کو سامنے رکھ کر تشکیل پاتی ہیں ۔ ہر اچھے اور برے معاملے میں بھارت سے موازنہ کیا جاتا ہے ۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر دہلی کی بابت لا علمی کا عالم یہ نہ ہوتا تو شہر یار خان شیو سینا اور ’’ بی جے پی ‘‘ کو الگ الگ صف میں کھڑا نہ کرتے اور انھیں بھارت جانے سے پہلے علم ہوتا کہ چار اکتوبر کو ’’ بی سی سی آئی ‘‘ کے نئے بننے والے چیئر مین ’’ ششانک منوہر ‘‘ بنیادی طور پر ’’ آر ایس ایس ‘‘ نظریات کے حامل ہیں اور ان کے دادا تک بھارتی جن سنگھ ( ’’ بی جے پی ‘‘ کا پرانا نام ) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑتے رہے ہیں ۔
علاوہ ازیں موجودہ بھارتی کرکٹ بورڈ میں اس وقت اصل کرتا دھرتا بورڈ کے سیکرٹری ’’ انو راگ ٹھاکر ‘‘ ہیں ۔ اکتالیس سالہ ٹھاکر ’’ ہمیر پور ‘‘ ( ہماچل پردیش ) سے ’’ بی جے پی ‘‘ کے رکن لوک سبھا ہیں اور وہ ’’ بی جے پی ‘‘ سے تعلق رکھنے والے ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ’’ پریم کمار دھمل ‘‘ کے بیٹے ہیں اور شہر یار خان نے اگر کوئی معاملہ طے کرنا ہی تھا تو ’’ انو راگ ٹھاکر ‘‘ سے بات کرتے ۔ ’’ راجیو شکلا ‘‘ اگرچہ ’’ آئی پی ایل ‘‘ کمشنر ہیں مگر ان کا تعلق کانگریس سے ہے اور ان سے ملاقاتیں شہریار کے موقف کے خلاف تو جا سکتی تھیں ، مگر حق میں نہیں کیونکہ ’’ بی جے پی ‘‘ حکومت میں بھلا ’’ راجیو شکلا ‘‘ کی کون سنتا ہے ۔
بہر کیف بھارتی معاملات سے لا علمی میں شہر یار خان کا بھی کوئی خاص قصور نہیں ۔ بد قسمتی سے یہ ہمارے ہاں کا اجتماعی مسئلہ ہے تبھی تو چند ہفتے قبل ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ شیخوپورہ میں ایک جلسے سے فرما رہے تھے کہ ’’ حکومت کو اپنے کسانوں کا اسی طرح خیال رکھنا چاہیے جس طرح بھارت میں کسانوں کا خیال رکھا جا تا ہے ‘‘۔ اب بھلا انھیں کون بتائے کہ پچھلے پندرہ برسوں میں بھارت میں سوا تین لاکھ سے زائد بھارتی کسان غربت اور سرکاری قرض میں جکڑے ہونے کی وجہ سے خود کشی کر چکے ہیں اور آج بھی ہر پینتیس منٹ بعد ایک بھارتی کسان افلاس کے ہاتھوں خودکشی کرتا ہے ۔ بھارتی پنجاب جیسے نسبتاً خوشحال سمجھے جانے والے صوبے میں پچھلے تین برسوں میں سات ہزار کسان خود کشی کر چکے ہیں ۔ مودی کے اقتدا ر میں صوبہ گجرات میں چھ ہزار بھارتی کسان موت کو گلے لگا چکے ہیں لہذا خدا نہ کرے کہ پاکستانی کسانوں کا حال بھارتی کسانوں جیسا ہو ۔
دوسری جانب پہلے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے وزیر اعظم کے دورے سے عین پہلے امریکہ میں پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی کر کے ایک اور ناقابلِ رشک فعل انجام دیا ہے جو بہر حال قابلِ مذمت ہے ۔
وطن عزیز میں بھارت کی مجموعی ترقی کی بابت بھی بہت سٹیریو ٹائپ تصور موجود ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی بھارت ساؤتھ انڈیا کے چند مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر بھارت میں غربت کا عالم ایسا ہے جس کا تصور کوئی پسماندہ افریقی ممالک بھی نہیں کر سکتے ۔ گذشتہ برس کی ’’ گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ ‘‘ میں بھارت پاکستان اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہے ۔ ابھی چند روز پہلے ’’ بل گیٹس ‘‘ کی اہلیہ ’’ منڈریلا گیٹس ‘‘ نے اپنی فاؤنڈیشن کی سروے رپورٹ میں بھارتی خواتین کی حالت زار اور ان پر ہونے والے تشدد پر گہری تشویش ظاہر کی ہے ۔
ہمارے یہاں میڈیا پر بھارت کے حوالے سے حقائق کے منافی ایسے ایسے حواے دیئے جاتے ہیں جنہیں سن کر تعجب ہوتا ہے ۔ چند روز قبل ایک نامی گرامی تجزیہ کار فرما رہے تھے کہ عام انتخابات کے وقت بھارتی الیکشن کمیشن نگران حکومت کے فرائض انجام دیتا ہے ۔ موصوف کو شاید علم نہیں کہ وہاں بھی صورتحال ہمارے جیسی ہی تھی البتہ 1989 میں ’’ ٹی این سیشن ‘‘ جب چیف الیکشن کمشنر بنے تو انھوں نے اپنے طرز عمل سے اس ادارے کا انتہائی اچھا بھرم قائم کیا اور یہ سب کچھ کسی قانون سازی کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ موصوف کی اپنی شخصیت اور کردار کا کما ل تھا ۔ ان کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی ان روایات کو قائم رکھا اور تا حال یہ سارا سلسلہ روایات کے سہارے چل رہا ہے ۔
البتہ یہ بات ضرور ہے کہ درج ذیل چند امور کی وجہ سے بھارت دنیا میں معتبر بنا رہا ہے ۔ ان میں سر فہرست ’’ انتخابات کے ذریعے حکومت کی تبدیلی ‘‘ ، دوسری ’’ چند قلیدی عہدوں پر غیر ہندوؤں کا تقرر جیسا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر بھی ’’ نسیم زیدی ‘‘ ہیں اور بالعموم قلیدی عہدوں پر فائض ایسے اقلیتی افراد اپنی ساکھ قائم کرنے کے لئے ’’ شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری ‘‘ اور اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایسا تقریباً دنیا بھر میں ہوتا ہے ۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ بھارتی نیوز چینلز پر تو ہمارے ہاں پابندی ہیں جبکہ ان کی فلمیں تمام چھوٹے بڑے چینلز پر بلا دھڑک دکھائی جاتی ہیں حالانکہ ان فلموں کے ذریعے ایک جانب فحاشی پھیلائی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کے خلاف حد درجہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور اس پراپیگنڈے کے اثرات بھی دیر پا ہوتے ہیں ۔
ایسے میں پالیسی ساز حلقے اگر مناسب سمجھیں تو اس ضمن میں نظر ثانی کی جانی چاہیے ۔ ایک غلط تصور بھی ہمارے ہاں عام ہے کہ بھارتی میڈیا اور غیر ممالک میں مقیم بھارتی ہم سے زیادہ قوم پرست نیشنلسٹ اور محب وطن ہیں جبکہ زمینی حقیقت اس سے قطعاً برعکس ہے ۔ بہر کیف ایک نشست میں اس معاملے کے سارے پہلوؤں پر بات نا ممکن ہے ۔ انشاء اللہ آئندہ نشست میں اس معاملے کے دیگر پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش ہو گی ۔
حرف آخر کے طور پر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی حقیقی سوچ کو سمجھے کے لئے زیادہ موثر اور تسلسل پر مبنی پالیسیاں اپنائے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے ذریعے وطن عزیز کو در پیش بہت سی مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے ۔
وطن عزیز میں بھارت کے حوالے سے دو مکتبہ فکر پائے جاتے ہیں ۔ ایک بھاری اکثریت کے نزدیک بھارت پاکستان کا مخالف بلکہ دشمن ہے جبکہ دوسرے حلقے کی رائے اس کے بر عکس ہے ۔ بہر حال بھارت کو مخالف کہنے والے صحیح ہوں یا دوست قرار دینے والے ۔ اپنے دوست یا دشمن کے بارے میں کسی بھی فرد یا قوم کو مکمل آگاہی حاصل ہونی چاہیے ۔ اس کے سارے احوال ،خوبیوں اور خامیوں کا علم ہونا از بس ضروری ہے ۔ راقم کی رائے میں بھارت کے حوالے سے وطن عزیز میں اس بابت صورتحال تسلی بخش نہیں حالانکہ ہماری خارجہ ، دفاعی حتیٰ کہ داخلی پالیسیاں بھی بالعموم کسی نہ کسی طور بھارت کے طرز عمل کو سامنے رکھ کر تشکیل پاتی ہیں ۔ ہر اچھے اور برے معاملے میں بھارت سے موازنہ کیا جاتا ہے ۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر دہلی کی بابت لا علمی کا عالم یہ نہ ہوتا تو شہر یار خان شیو سینا اور ’’ بی جے پی ‘‘ کو الگ الگ صف میں کھڑا نہ کرتے اور انھیں بھارت جانے سے پہلے علم ہوتا کہ چار اکتوبر کو ’’ بی سی سی آئی ‘‘ کے نئے بننے والے چیئر مین ’’ ششانک منوہر ‘‘ بنیادی طور پر ’’ آر ایس ایس ‘‘ نظریات کے حامل ہیں اور ان کے دادا تک بھارتی جن سنگھ ( ’’ بی جے پی ‘‘ کا پرانا نام ) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑتے رہے ہیں ۔
علاوہ ازیں موجودہ بھارتی کرکٹ بورڈ میں اس وقت اصل کرتا دھرتا بورڈ کے سیکرٹری ’’ انو راگ ٹھاکر ‘‘ ہیں ۔ اکتالیس سالہ ٹھاکر ’’ ہمیر پور ‘‘ ( ہماچل پردیش ) سے ’’ بی جے پی ‘‘ کے رکن لوک سبھا ہیں اور وہ ’’ بی جے پی ‘‘ سے تعلق رکھنے والے ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ’’ پریم کمار دھمل ‘‘ کے بیٹے ہیں اور شہر یار خان نے اگر کوئی معاملہ طے کرنا ہی تھا تو ’’ انو راگ ٹھاکر ‘‘ سے بات کرتے ۔ ’’ راجیو شکلا ‘‘ اگرچہ ’’ آئی پی ایل ‘‘ کمشنر ہیں مگر ان کا تعلق کانگریس سے ہے اور ان سے ملاقاتیں شہریار کے موقف کے خلاف تو جا سکتی تھیں ، مگر حق میں نہیں کیونکہ ’’ بی جے پی ‘‘ حکومت میں بھلا ’’ راجیو شکلا ‘‘ کی کون سنتا ہے ۔
بہر کیف بھارتی معاملات سے لا علمی میں شہر یار خان کا بھی کوئی خاص قصور نہیں ۔ بد قسمتی سے یہ ہمارے ہاں کا اجتماعی مسئلہ ہے تبھی تو چند ہفتے قبل ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ شیخوپورہ میں ایک جلسے سے فرما رہے تھے کہ ’’ حکومت کو اپنے کسانوں کا اسی طرح خیال رکھنا چاہیے جس طرح بھارت میں کسانوں کا خیال رکھا جا تا ہے ‘‘۔ اب بھلا انھیں کون بتائے کہ پچھلے پندرہ برسوں میں بھارت میں سوا تین لاکھ سے زائد بھارتی کسان غربت اور سرکاری قرض میں جکڑے ہونے کی وجہ سے خود کشی کر چکے ہیں اور آج بھی ہر پینتیس منٹ بعد ایک بھارتی کسان افلاس کے ہاتھوں خودکشی کرتا ہے ۔ بھارتی پنجاب جیسے نسبتاً خوشحال سمجھے جانے والے صوبے میں پچھلے تین برسوں میں سات ہزار کسان خود کشی کر چکے ہیں ۔ مودی کے اقتدا ر میں صوبہ گجرات میں چھ ہزار بھارتی کسان موت کو گلے لگا چکے ہیں لہذا خدا نہ کرے کہ پاکستانی کسانوں کا حال بھارتی کسانوں جیسا ہو ۔
دوسری جانب پہلے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے وزیر اعظم کے دورے سے عین پہلے امریکہ میں پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی کر کے ایک اور ناقابلِ رشک فعل انجام دیا ہے جو بہر حال قابلِ مذمت ہے ۔
وطن عزیز میں بھارت کی مجموعی ترقی کی بابت بھی بہت سٹیریو ٹائپ تصور موجود ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی بھارت ساؤتھ انڈیا کے چند مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر بھارت میں غربت کا عالم ایسا ہے جس کا تصور کوئی پسماندہ افریقی ممالک بھی نہیں کر سکتے ۔ گذشتہ برس کی ’’ گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ ‘‘ میں بھارت پاکستان اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہے ۔ ابھی چند روز پہلے ’’ بل گیٹس ‘‘ کی اہلیہ ’’ منڈریلا گیٹس ‘‘ نے اپنی فاؤنڈیشن کی سروے رپورٹ میں بھارتی خواتین کی حالت زار اور ان پر ہونے والے تشدد پر گہری تشویش ظاہر کی ہے ۔
ہمارے یہاں میڈیا پر بھارت کے حوالے سے حقائق کے منافی ایسے ایسے حواے دیئے جاتے ہیں جنہیں سن کر تعجب ہوتا ہے ۔ چند روز قبل ایک نامی گرامی تجزیہ کار فرما رہے تھے کہ عام انتخابات کے وقت بھارتی الیکشن کمیشن نگران حکومت کے فرائض انجام دیتا ہے ۔ موصوف کو شاید علم نہیں کہ وہاں بھی صورتحال ہمارے جیسی ہی تھی البتہ 1989 میں ’’ ٹی این سیشن ‘‘ جب چیف الیکشن کمشنر بنے تو انھوں نے اپنے طرز عمل سے اس ادارے کا انتہائی اچھا بھرم قائم کیا اور یہ سب کچھ کسی قانون سازی کے نتیجے میں نہیں ہوا بلکہ موصوف کی اپنی شخصیت اور کردار کا کما ل تھا ۔ ان کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی ان روایات کو قائم رکھا اور تا حال یہ سارا سلسلہ روایات کے سہارے چل رہا ہے ۔
البتہ یہ بات ضرور ہے کہ درج ذیل چند امور کی وجہ سے بھارت دنیا میں معتبر بنا رہا ہے ۔ ان میں سر فہرست ’’ انتخابات کے ذریعے حکومت کی تبدیلی ‘‘ ، دوسری ’’ چند قلیدی عہدوں پر غیر ہندوؤں کا تقرر جیسا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر بھی ’’ نسیم زیدی ‘‘ ہیں اور بالعموم قلیدی عہدوں پر فائض ایسے اقلیتی افراد اپنی ساکھ قائم کرنے کے لئے ’’ شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری ‘‘ اور اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایسا تقریباً دنیا بھر میں ہوتا ہے ۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ بھارتی نیوز چینلز پر تو ہمارے ہاں پابندی ہیں جبکہ ان کی فلمیں تمام چھوٹے بڑے چینلز پر بلا دھڑک دکھائی جاتی ہیں حالانکہ ان فلموں کے ذریعے ایک جانب فحاشی پھیلائی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کے خلاف حد درجہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور اس پراپیگنڈے کے اثرات بھی دیر پا ہوتے ہیں ۔
ایسے میں پالیسی ساز حلقے اگر مناسب سمجھیں تو اس ضمن میں نظر ثانی کی جانی چاہیے ۔ ایک غلط تصور بھی ہمارے ہاں عام ہے کہ بھارتی میڈیا اور غیر ممالک میں مقیم بھارتی ہم سے زیادہ قوم پرست نیشنلسٹ اور محب وطن ہیں جبکہ زمینی حقیقت اس سے قطعاً برعکس ہے ۔ بہر کیف ایک نشست میں اس معاملے کے سارے پہلوؤں پر بات نا ممکن ہے ۔ انشاء اللہ آئندہ نشست میں اس معاملے کے دیگر پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش ہو گی ۔
حرف آخر کے طور پر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی حقیقی سوچ کو سمجھے کے لئے زیادہ موثر اور تسلسل پر مبنی پالیسیاں اپنائے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے ذریعے وطن عزیز کو در پیش بہت سی مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے ۔
چھبیس اکتوبر کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )