Skip to content Skip to footer

!بیف ، ’’ ڈی این اے ‘‘ اور بھارتی سیاست

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu
بھارتی صوبے ’’ اتر کھنڈ ‘‘ کے کانگرسی وزیر اعلیٰ ’’ ہریش راوت ‘‘ نے سولہ جون کو کہا ہے کہ ’’ گائے کے کوشت کھانے والے کے لئے بھارت میں cow1کوئی جگہ نہیں ‘‘ ۔ اس سے پہلے کئی مہینوں سے ’’ بی جے پی ‘‘ نے اس معاملے کو لے کر ادھم مچا رکھا ہے ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ بھارت کے جنونی ہندوؤں گروہوں کو بابری مسجد کے بعد سے ایک ایسے معاملے کی تلاش تھی جس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کے خلاف ہندوستان گیر محاذ بنا سکیں ۔ مودی سرکار کی آمد کے بعد پہلے ’’ لو جہاد ‘‘ اور پھر ’’ گھر واپسی ‘‘ کی مہمیں چلانے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی نہ ملی ۔ بالآخر گائے کے تحفظ کا ایک ایسا موضوع سامنے آیا جس پر بھارت بھر کے ہندوؤں کو سنگھ پریوار کے مطابق متحد کیا جا سکے ۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ خود ہندو دھرم کے چاروں ویدوں کے مطابق گائے کے حوالے سے کیا لکھا گیا ہے ۔ ان میں کچھ ایسی تحریریں بھی ہیں جن سے گؤ رکھشا کے حوالے سے ہندو دھرم کے مذہبی عقائد کو اچھی خاصی ضرب پڑتی ہے ۔ مثلاً بھارت کے نامور مصنف اور مورخ ’’ نراد چوہدری ‘‘ نے لکھا تھا کہ ’’ جب آریہ باہر سے ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ سفید رنگ کی گائے بھی لائے کیو نکہ بھارت کے اند ر بھینسے اور اس قسم کے دوسرے دودھ دینے والے مویشی زیاددہ تر کالے رنگ کے ۔ تو آریوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ آگے چل کر گایوں کی محدود تعداد ختم ہو جائے گی جس کی وجہ سے دودھ کی کمی کا مسئلہ در پیش ہو سکتا ہے اس لئے آریہ لوگوں نے گائے کے گرد مذہبی تقدس کا ایک حالہ بنا دیا تا کہ اسے مارا نہ جا سکے بلکہ اس کی پوجا کی جائے ‘‘ ۔ نراد چوہدری کے اس خیال سے یقیناً پختہ عقیدہ رکھنے والے ہندو متفق نہیں لیکن نراد چوہدری کے پاس بھی اپنے دعوے کے حق میں اچھے خاصے دلائل ہیں ۔
کچھ ایسے ہندو بھی ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں لیکن اس کا کھلم کھلا اعلان نہیں کرتے جن میں نمایاں نام ’’ جسٹس مار کنڈے کاٹجو ‘‘ کا ہے جن کے داد ا ماضی میں یو پی کے وزیر انصاف ’’ کیلاش ناتھ کاٹجو ‘‘ تھے ۔ یہ کشمیری پنڈتوں کا خاندان ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیض کہ سب کشمیری پنڈت گوشت خوری کرتے ہیں ۔ اس پس منظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پورے بھارت میں گؤ کشی کو ممنوع قرار دینا ممکن ہے کیونکہ کروڑوں دلت اپنے کاروباری پیشہ سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ ان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ مری ہوئی گایوں کی کھال اتار کر چمڑا بنانے میں کام دیں اور اس طرح چرم ساز صنعتوں کے لئے خام مال فراہم کریں ۔
بھارت کے مختلف صوبوں میں گؤ کشی پر پابندی کے معاملے پر نگاہ ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ بنگال ، کیرالہ اور گوا کے علاوہ شمال مشرقی صوبوں ارونا چل ، پیزارام ، میگھالہ ، ناگا لینڈ ، منی پور ، تری پورہ ، آسام اور سکم میں بیف کھانے کی ممانعت نہیں ہے ۔ چند ماہ پہلے اسی لئے بھارت کے نائب وزیر داخلہ ’’ کرن رجیجو ‘‘ ( جن کا تعلق ارونا چل پردیش سے ہے ) اعلانیہ گائے کا گوشت کھانے کا اعتراف بھی کر چکے ہیں ۔ مندرجہ بالا فہرست سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ شمال مشرقی بھارت کی آٹھ ریاستوں کے علاوہ کیرالہ اور گوا میں بیف کھانے پر کوئی پابندی نہیں ( حالانکہ گوا میں ’’ بی جے پی ‘‘ کی سرکار ہے ) ۔
جن میں گائے کے ذبیحہ پر مکمل پابندی ہے ان میں مقبوضہ کشمیر ، ہریانہ ، پنجاب ، دہلی ، اتر کھنڈ ، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش ، جھارکھنڈ ، مہاراشٹر ، راجستھان اور گجرات شامل ہیں ۔ اتر پردیش میں گائے کا گوشت رکھنا ممنوع ہے البتہ قانونی طور پر جو گائے متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوں یا پھر ریاستی حکومت ریسرچ کی غرض سے گائے خاٹنے کی اجازت دے سکتی ہے ۔ آندھرا اور تلنگانہ میں گائے اور بچھڑے کو تحفظ ہے البتہ بوڑھی گائے ، بیل اور سانڈ کو کاٹنے کی اجازت بشرطیہ کہ متعلقہ افسر اس امر کا سرٹیفیکیٹ دے کہ یہ کھیتی کے قابل نہیں رہے یا یہ بتائے کdnaہ ان کے ذریعے اب دودھ اور بچے بھی حاصل نہیں ہو سکتے ۔ بہار میں گائے کے بچھڑے کو مارنا ممنوع ہے البتہ پندرہ سال سے اوپر کے بیلوں اور سانڈوں کو کاٹا جا سکتا ہے ۔ ہماچل پردیش میں بھی اگر ریسرچ کے لئے ضرورت ہو تو یہ جانور کاٹا جا سکتا ہے ۔ کرناٹک میں بوڑھی اور بیمار گایوں کو کاٹنے کی اجازت ہے ، ان کا گوشت رکھنا جرم نہیں ۔ اڑیسہ میں اگر گائے بیمار ہے یا اجازت ملنے پر گائے ، بیل اور سانڈ کاٹے جا سکتے ہیں ۔
پنجاب میں حکومت کی جانب سے ایکسپورٹ کے لئے بڑے جانوروں کے سلاٹر کی اجازت ہے ۔ نامل ناڈو میں گائے اور بچھڑے کا ذبیحہ ممنوع ہے البتہ گوشت کھانے پر پابندی اور بالکل بیکار ہو جانے والے جانوروں کو مارنے کی اجازت ہے ۔ بیف کا حالیہ مسئلہ شروع ہونے کے بعد سے کچا مال نہ ملنے کی وجہ سے چمڑے کے چھوٹے کارخانے بند ہونے لگے ہیں ۔ 2014-2015 کے دوران بارہ ارب ڈالر کے چمڑے کا سامان تیار ہوا تھا ۔ اس میں سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا ساما ن بر آمد کیا گیا ۔ اس کاروبار میں پچیس لاکھ لوگ لگے ہوئے ہیں جن میں بیشتر نچلے طبقے کے اچھوت ہیں ۔ بیف ایکسپورٹ کرنے میں ہندوستان کا پہلا نمبر ہے حالانکہ یہ بھینس کا گوشت ہوتا ہے لیکن ہندو تنظیموں نے جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے نتیجے مین یہ بھی متاثر ہوتا ہے ۔ 2014-15 کے سال میں اکیتیس ارب اٹھائیس کروڑ روپے مالیت کا بیف ایکسپورٹ کیا گیا لیکن نئے حالات میں اس کاروبار کا مستقبل بھی تاریک نظر آتا ہے کیونکہ اب مویشی سے لدے ہوئے ٹرکوں پر حملے کے خدشات ہیں اور قتل تک نوبت آ جاتی ہے ۔ اس کے باوجود اگر بھارتی سرکار یہ کہے کہ وہاں عدم رواداری کا ماحول پیدا نہیں ہو ا تو اس پر حیرانی ہی ظاہر کی جا سکتی ہے ۔
اب تو بھارتی سیاست کا عالم یہ ہو گیا ہے کہ اس میں انتہائی قابلِ اعتراض زبان کا چلن بھی عام ہو گیا ہے مثلاً شترو گھن سنہا نے 17 نومبر کو کہا کہ ’’ ’’ بی جے پی ‘‘ سرکار کے کسی لیڈر کا ’’ ڈی این اے ‘‘ اتنا طاقتور نہیں کہ وہ بہاری بابو یا آر کے سنگھ کو پھٹکار لگا سکے کیونکہ ہم دونوں بہار کے شیر ہیں ۔‘‘ ۔ یاد رہے کہ اس معاملے کی ابتدا مودی نے کی تھی جب مودی نے نتیش کمار کا ’’ ڈی این اے ‘‘ کمزور اور خراب ہونے کی بات کی تھی ۔ بہر حال اب یہ سلسلہ چل نکلا ہے ۔ دیکھیں کہاں تک پہنچے ۔

تیئس نومبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔

( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

 

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements