Newspaper Article 08/02/2016
بیرونی دنیا میں یوں تو اس بات کا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی شعبہ پر مذہبی انتہا پسند قابض ہیں مگر اس ضمن میں بھارت کی صورتحال تب عیاں ہوئی جب نیو یارک ٹائمز نے اپنی ستائیس جنوری کی اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت کے تعلیمی اداروں کی اکثریت پر دائیں بازو کے ہندو انتہا پسندوں کا کنٹرول روز بروز شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے ۔ برطانوی نژاد بھارتی صحافی اور مصنف ’’ آتش تاثیر ‘‘ نے اپنی تحریر بعنوان ’’ دی رائٹ ونگ اٹیک آن انڈیا یونیورسٹیز ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ کس طرح ہندو ستان کے طول و عرض میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں اپنا غلبہ حاصل کر رہی ہیں ۔ اس ضمن میں انھوں نے ’’ سندیپ پانڈے ‘‘ نامی ایک ہندو دانشور کا حوالہ دیا اور لکھا ہے
’’ میں سندیپ پانڈے سے تب ملا جب انھیں بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک اچھی شہرت کے حامل ٹیکنیکل ادارے سے وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے نکالا گیا ۔ مسٹر پانڈے نے مجھے بتایا کہ بھارت کی اکثر یونیورسٹیوں کی مانند بنارس کی ہندو یورنیورسٹی پر بھی آر ایس ایس غلبہ پا چکی ہے اور یہ لوگ معمولی سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے خصوصاً جب سے مودی کی زیر قیادت مئی 2014 میں بی جے پی کی حالیہ گورنمنٹ قائم ہوئی ہے ، تب سے یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے ۔ ‘‘
اس معاملے کا تفصیل سے جائزہ لینے سے پہلے یہ غیر مناسب نہ ہو گا کہ اس تحریر کے مصنف ’’ آتش تاثیر ‘‘ کی شخصیت کا مختصر سا جائزہ لیا جائے ۔ یہ بھارتی نژاد صحافی اور ادیب 1980 میں پیدا ہوا اور اس کی والدہ نامور بھارتی صحافی ’’ تلوین سنگھ ‘‘ اور اس کے والد مرحوم ’’ سلیمان تاثیر ‘‘ تھے ۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سلیمان تاثیر معروف کاروباری شخصیت اور پاکستان کے ایک نامور سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں ۔ فرنچ زبان میں گریجویشن کرنے کے بعد آتش تاثیر نے ایمہرسسٹ کالج ، میسا چیوٹس ‘‘ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ۔ ٹائمز میگزین کے لئے کافی عرصہ بطورِ صحافی کام کرنے کے علاوہ انھوں نے ’’ سنڈے ٹائمز ‘‘ ، ’’ سنڈے ٹیلی گراف ‘‘ اور ’’ فانینشل ٹائمز ‘‘ سمیت بہت سے اخبارات و جرائد میں بطورِ صحافی خدمات انجام دیں ۔ موصوف نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ یوں یہ با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بظاہر خاصے لبرل خیالات کے حامل سمجھے جاتے ہیں ۔ اگر ایسی شخصیت کی جانب سے بھی بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی اور انڈین یونیورسٹیز پر آر ایس ایس کے کنٹرول کی بات کی جاتی ہے تو اسے محض سرسری سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
کیونکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آر ایس ایس نے جہاں زندگی کے دوسروں شعبوں میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ، اسی طرح سے تعلیم و تربیت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اپنے نظریات کے فروغ کے لئے ’’ اکھل بھارتیہ شکھشا سنستھان ‘‘ قائم کر رکھی ہے جسے مختصر طور پر ’’ ودیا بھارتی ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کے تحت بھارت کے اندر ہزاروں کی تعداد میں تعلیمی ادارے چلائے جاتے ہیں ۔ اس کا رجسٹرڈ دفتر یو پی کی راجدھانی ’’ لکھنؤ ‘‘ میں جبکہ فنکشنل ہیڈ کوارٹر دہلی میں اور ذیلی مرکز ’’ کورو کھشیتر ( ہریانہ ) ‘‘ میں واقع ہے ۔2003 تک اس کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کی تعداد 14000 تھی جہاں 17 لاکھ طلباء زیر تعلیم تھے جبکہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں کی تعداد پچیس ہزار ہو چکی ہے جہاں تیس لاکھ سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔ جس میں بہت سی یونیورسٹیاں اور ہزاروں کی تعداد میں کالج ، درجنوں ووکیشنل اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹویٹس شامل ہیں ۔ اور انھی کے ذریعے ہندو انتہا پسند نظریات کو ہر ممکن ڈھنگ سے فروغ دیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ نصابی کتابوں میں اپنی مرضی کا نصاب شامل کرنے کے لئے نصاب ترتیب دینے والے سرکاری اداروں پر بھی گرفت مضبوط کر لی گئی ہے اور ان کتابوں میں ’’ اکبرِ اعظم ‘‘ جیسی شخصیت کو بھی ’’ غیرملکی حملہ آور ‘‘ قرار دیا گیا ہے حالانکہ کسے علم نہیں کہ اکبر اعظم نے تو ہندوؤں کی خوشنودی کے لئے ’’ دین الہیٰ ‘‘ کے نام سے ایک علیحدہ مذہب تک متعارف کرا دیا تھا ۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ وہ نام نہاد مذہب اکبر کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ۔ آر ایس ایس نے بھارت کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے بی جے پی کے تحت چلنے والی طلباء تنظیم ’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘ ( اے بی وی پی ) کے ذریعے اکثر طلباء یونینز پر قبضہ کر رکھا ہے اور یوں ہندو ستان کے طول و عرض میں اپنے من پسند نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹر کے شہر ’’ پونا ‘‘ میں واقع ’’ فلم اکیڈمی ‘‘ کے سربراہ کے طور پر بھی بی جے پی سرکار نے اپنے من پسند شخص کی تعیناتی کر دی ہے جس کے خلاف اعتدال پسند طلباء نے گذشتہ چار ماہ سے سے بھی زائد عرصے سے ہڑتال کر رکھی ہے ۔
بہر کیف مندرجہ بالا تجزیے سے با آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ستائیس جنوری کی اشاعت میں ’’ آتش تاثیر ‘‘ نے ’’ نیویارک ٹائمز ‘‘ جیسے معتبر سمجھے جانے والے اخبار کے ذریعے ہندوستان کے تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں پر انتہا پسند وں کے کنٹرول کی جو بات کی ہے وہ سو فیصد حقائق پر مبنی ہے جس کی جانب عالمی برادری کو سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی کیونکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انتہا پسندی ہی اگلے مرحلے میں دہشتگردی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور گذشتہ دو برس کے آثار ظاہر کر رہے ہیں کہ بھارت میں آنے والے دنوں میں بڑھ رہے یہ ہندو نظریات زعفرانی دہشتگردی کے پہلے سے جاری سلسلے کو خطر ناک حد تک فروغ دے سکتے ہیں جس کے اثرات سے علاقائی اور عالمی امن مزید زہر آلود ہ ہو سکتا ہے ۔
’’ میں سندیپ پانڈے سے تب ملا جب انھیں بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک اچھی شہرت کے حامل ٹیکنیکل ادارے سے وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے نکالا گیا ۔ مسٹر پانڈے نے مجھے بتایا کہ بھارت کی اکثر یونیورسٹیوں کی مانند بنارس کی ہندو یورنیورسٹی پر بھی آر ایس ایس غلبہ پا چکی ہے اور یہ لوگ معمولی سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے خصوصاً جب سے مودی کی زیر قیادت مئی 2014 میں بی جے پی کی حالیہ گورنمنٹ قائم ہوئی ہے ، تب سے یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے ۔ ‘‘
اس معاملے کا تفصیل سے جائزہ لینے سے پہلے یہ غیر مناسب نہ ہو گا کہ اس تحریر کے مصنف ’’ آتش تاثیر ‘‘ کی شخصیت کا مختصر سا جائزہ لیا جائے ۔ یہ بھارتی نژاد صحافی اور ادیب 1980 میں پیدا ہوا اور اس کی والدہ نامور بھارتی صحافی ’’ تلوین سنگھ ‘‘ اور اس کے والد مرحوم ’’ سلیمان تاثیر ‘‘ تھے ۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سلیمان تاثیر معروف کاروباری شخصیت اور پاکستان کے ایک نامور سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب کے گورنر بھی رہ چکے ہیں ۔ فرنچ زبان میں گریجویشن کرنے کے بعد آتش تاثیر نے ایمہرسسٹ کالج ، میسا چیوٹس ‘‘ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ۔ ٹائمز میگزین کے لئے کافی عرصہ بطورِ صحافی کام کرنے کے علاوہ انھوں نے ’’ سنڈے ٹائمز ‘‘ ، ’’ سنڈے ٹیلی گراف ‘‘ اور ’’ فانینشل ٹائمز ‘‘ سمیت بہت سے اخبارات و جرائد میں بطورِ صحافی خدمات انجام دیں ۔ موصوف نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ یوں یہ با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ وہ بظاہر خاصے لبرل خیالات کے حامل سمجھے جاتے ہیں ۔ اگر ایسی شخصیت کی جانب سے بھی بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی اور انڈین یونیورسٹیز پر آر ایس ایس کے کنٹرول کی بات کی جاتی ہے تو اسے محض سرسری سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
کیونکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آر ایس ایس نے جہاں زندگی کے دوسروں شعبوں میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں ، اسی طرح سے تعلیم و تربیت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اپنے نظریات کے فروغ کے لئے ’’ اکھل بھارتیہ شکھشا سنستھان ‘‘ قائم کر رکھی ہے جسے مختصر طور پر ’’ ودیا بھارتی ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کے تحت بھارت کے اندر ہزاروں کی تعداد میں تعلیمی ادارے چلائے جاتے ہیں ۔ اس کا رجسٹرڈ دفتر یو پی کی راجدھانی ’’ لکھنؤ ‘‘ میں جبکہ فنکشنل ہیڈ کوارٹر دہلی میں اور ذیلی مرکز ’’ کورو کھشیتر ( ہریانہ ) ‘‘ میں واقع ہے ۔2003 تک اس کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کی تعداد 14000 تھی جہاں 17 لاکھ طلباء زیر تعلیم تھے جبکہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں کی تعداد پچیس ہزار ہو چکی ہے جہاں تیس لاکھ سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔ جس میں بہت سی یونیورسٹیاں اور ہزاروں کی تعداد میں کالج ، درجنوں ووکیشنل اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹویٹس شامل ہیں ۔ اور انھی کے ذریعے ہندو انتہا پسند نظریات کو ہر ممکن ڈھنگ سے فروغ دیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ نصابی کتابوں میں اپنی مرضی کا نصاب شامل کرنے کے لئے نصاب ترتیب دینے والے سرکاری اداروں پر بھی گرفت مضبوط کر لی گئی ہے اور ان کتابوں میں ’’ اکبرِ اعظم ‘‘ جیسی شخصیت کو بھی ’’ غیرملکی حملہ آور ‘‘ قرار دیا گیا ہے حالانکہ کسے علم نہیں کہ اکبر اعظم نے تو ہندوؤں کی خوشنودی کے لئے ’’ دین الہیٰ ‘‘ کے نام سے ایک علیحدہ مذہب تک متعارف کرا دیا تھا ۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ وہ نام نہاد مذہب اکبر کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ۔ آر ایس ایس نے بھارت کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے بی جے پی کے تحت چلنے والی طلباء تنظیم ’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘ ( اے بی وی پی ) کے ذریعے اکثر طلباء یونینز پر قبضہ کر رکھا ہے اور یوں ہندو ستان کے طول و عرض میں اپنے من پسند نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ مہاراشٹر کے شہر ’’ پونا ‘‘ میں واقع ’’ فلم اکیڈمی ‘‘ کے سربراہ کے طور پر بھی بی جے پی سرکار نے اپنے من پسند شخص کی تعیناتی کر دی ہے جس کے خلاف اعتدال پسند طلباء نے گذشتہ چار ماہ سے سے بھی زائد عرصے سے ہڑتال کر رکھی ہے ۔
بہر کیف مندرجہ بالا تجزیے سے با آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ستائیس جنوری کی اشاعت میں ’’ آتش تاثیر ‘‘ نے ’’ نیویارک ٹائمز ‘‘ جیسے معتبر سمجھے جانے والے اخبار کے ذریعے ہندوستان کے تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں پر انتہا پسند وں کے کنٹرول کی جو بات کی ہے وہ سو فیصد حقائق پر مبنی ہے جس کی جانب عالمی برادری کو سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی کیونکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انتہا پسندی ہی اگلے مرحلے میں دہشتگردی کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور گذشتہ دو برس کے آثار ظاہر کر رہے ہیں کہ بھارت میں آنے والے دنوں میں بڑھ رہے یہ ہندو نظریات زعفرانی دہشتگردی کے پہلے سے جاری سلسلے کو خطر ناک حد تک فروغ دے سکتے ہیں جس کے اثرات سے علاقائی اور عالمی امن مزید زہر آلود ہ ہو سکتا ہے ۔
آٹھ فروری کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )