Newspaper Article 22/08/2016
مصنف نے اپنی پچھلی تحریر میں افغان مہاجرین کے متعلق بات کی ۔ مگر حال ہی میں ، ان میں سے ایک نے سفاکی کی بد ترین تاریخ رقم کرتے ہوئے دہشتگردی کے ذریعے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ۔ ایک سترہ سالہ نوجوان افغان نے ، جو کہ کلہاڑے اور چاقو سے مسلح تھا ، ’’ بیواریا ‘‘ میں ایک ٹرین میں دہشتگردی کی واردات کی ، جس میں چار افراد گھائل ہوئے ۔ ہانگ کانگ کا ایک خاندان جو بد قسمتی سے وہاں سے گزر رہا تھا وہ بھی اس کا نشانہ بنا ۔ اس آدمی کو پولیس نے موقع پر ہی گولی مار دی تھی ۔
اسی پس منظر میں اسلام فوبیا سے متاثر جو لوگ مہاجرین کے استقبال سے انکاری ہیں وہ جارحانہ اوربے سر و پا افسانہ طرازیوں میں مصروف ہیں ۔ ایسے عناصر حقائق کے مقابلے میں اپنے خبط اور جنون کے عکاس ہیں ۔ اس مجرمانہ عمل سے کچھ سیکھنا تبھی ممکن ہے جب ہم جذبات سے اوپر اٹھ کر زمینی حقائق کا ادراک کرنے کی سعی کریں ۔
اسی تناظر میں غیر جانبدار مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ بات پہلے سے ہی عیاں ہے کہ اگر یہ شخص واقعتاً حقائق سے مکمل آگاہی رکھتا تو ممکنہ طور پر اس صورتحال کو مختلف انداز میں بیان کیا جاتا ۔کیونکہ اس چلن نیاپنی جڑیں خاصی مضبوط کر لی ہیں کہ جس کا ثقافتی پس منظر اور رنگ و نسل مختلف ہو ، صرف اسی کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے ۔
یہان اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ ہم ( یورپ ) دنیا میں جہادی دہشتگردی سے انکار نہیں کرتے ۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سب سے زیادہ بھگت بھی مسلمان ہی رہے ہیں ۔ اور قسم کا فوبیا اصل میں مغرب کے ایک خاص طبقے کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے اور صورتحال یہ شکل اختیار کر چکی ہے کہ اسلام فوبیا داعش کا ایک غیر شعوری معاون ہے ۔ یہ دو اقسام کی انتہا پسندی دہشت کے زور پر ہمارے جیسے کھلے معاشروں کو قید اور محدود کر دینے کی غیر اعلانیہ سعی ہے ۔ جہاں تمام افراد کو مساوی انسانی حقوق اور مواقع میسر ہیں اور جن معاشروں میں فرد کو بڑی حد تک آزادی حاصل ہے ۔
یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ یورپ کے دروازے کھٹکھٹانے والا یہ دوسرا بڑا گروہ افغان قوم کا ہے کیونکہ 2014 کی بہ نسبت 2015 میں ان کی تعداد اور تناسب چھ گنا زیادہ تھا۔ ان کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی جن میں خواتین ، بچے اور بوڑھے سبھی شامل تھے کیونکہ ان کے یہاں یہ تاثر خاصا پختہ ہو چکا ہے کہ ان کو حقیقی خطرات لاحق ہیں جو ان کے نزدیک بقاکا مسئلہ بن چکا ہے انھیں حقیقی اندیشہ ہے کہ یہ صورتحال آگے چل کر ان کے لئے نا قابلِ تصور حد تک خطرات پیدا کر سکتی ہے
۔ ان طبقات کو طالبان کے علاوہ بد دیانت پولیس افسران اور دیگر جنگجو گروہوں سے بھی انتہا درجے کا خطرہ ہے ۔اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ خانہ جنگی کے تین سے زائد عشرے گزرنے کے باوجود ان کو لاحق خطرات میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ۔ شاید ایسی ہی کسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ایک سترہ سالہ افغان نوجوان نے تباہی ، بربادی اور دہشتگردی کے راستے کا انتخاب کیا جسے کسی بھی صورت مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
البتہ یہ امر پیش نظر رہنا اشد ضروری ہے کہ چند افراد یا کسی ایک گروہ کی وجہ سے متعلقہ پورے معاشرے کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے ۔ کچھ حلقوں کے نزدیک یہ معاملہ شاید بہت سادہ نظر آئے اور وہ یہ قرار دیں کہ داعش ، طالبان اور دیگر شدت پسند عناصر کے فروغ کے لئے وہ حلقے ذمہ دار ہے جو مذہب اور اسلامی نظریات کے خاتمے کے خواہش مند ہیں مگر در حقیقت یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ یہ قرار دے دیا جائے کہ یہ سبھی مذہبی طبقات مغرب کے نو آبادیاتی نظام اور امریکی پالیسیوں کے حامی ہیں اور ان پر اعتماد کرتے ہیں ۔
در حقیقت وہ ہمارے( یورپ ) خلاف نہیں ہیں ۔ اس معاملے کی حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر کے دیگر لوگوں کی مانند ان لوگوں کی بھی ایک بھاری اکثریت پر امن زندگی گزارنے کی خواہش مند ہے ۔ یہ تو صرف وہ چھوٹی اور حقیر سی ااقلیت ہے جواس قسم کے متشدد رویوں کو فروغ دیتی ہے ۔ جرمنی اور دیگر مغربی ممالک کی تہذیب اور ثقافت کی بات کرتے ہوئے ہمیں دنیا کے ہر خطے کی مانند وہاں کے مسلمانوں کے ثقافتی تحفظ کا احساس بھی کرنا ہو گا ۔
اور سبھی کو دوسرے کی قومیت ، حقیقی شہریت کی بابت بات کرتے ہوئے وہاں کے رسوم و رواج کو پوری طرح سے دھیان میں رکھنا ہو گا ۔ یہ بات ثانوی حیثیت کی حامل ہے کہ ایسا فرد پاکستانی ہے یا افغان ۔ اس سے ہمیں بڑی حد تک یہ رہنمائی ملے گی اور طالبان کے ساتھ جاری کشمکش کو شاید زیادہ موثر اور ہمہ گیر طریقے سے حل کیا جا سکے گا ۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ انتہا پسندی کے حالیہ واقعے میں ملوث شدت پسند مجرمانہ پس منظر کا حامل افغان تھا ۔ یہ بھی سبھی کو معلوم ہے کہ یہ لسانی گروہ دو ممالک کے درمیان بٹا ہوا ہے اور یہ نہ صرف افغان طالبان بلکہ پاکستانی طالبان کی طرف سے بھی نشانہ بنتا رہتا ہے جو پشتون قبائلی علاقوں میں اسلام آباد کی اتھارٹی کووقتاً فوقتاً چیلنج کرتے رہتے ہیں ۔
یہ المیہ اس امر کی یاد دہانی کراتا ہے کہ افغان کشیدگی اور محاذ آرائی اپنی جغرافیائی سرحدوں سے باہر نکل کر خطے کو بھی غیر محفوظ کرنے کی حقیقی صلاحیت کی حامل ہے ہے اور علاقائی ممالک کے لئے خطرناک حد تک نقصان دہ ہے جن میں ایران ، پاکستان ، وسطی ایشیاء بلکہ چین اور سنکیانگ سبھی شامل ہیں ۔ اس کو محض اس وجہ سے نظر انداز کرنا مناسب نہ ہو گا کہ وقتی طور پر اسے میڈیا میں خاطر خواہ توجہ کا حامل نہیں سمجھا جا رہا ۔
اس تلخ حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ محاجرین بھلے ہی مسلم ہوں یا غیر مسلم ، وہ نہ تو فرشتے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر برے ۔ ان میں جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں کیونکہ دنیا کے ہر معاشرے میں یہ پائے جاتے ہیں ۔ محض اس وجہ سے ان کو مطعون قرار دینا مناسب نہ ہو گا کہ وہ ان کا تعلق ناکام ریاستوں اور معاشروں سے ہے جو کہ خانہ جنگی ، دہشتگردی اور قتل عام کے نتیجے میں تباہ ہو چکے ہیں ۔ انھیں ہر طرح کی مدد کی ضرورت ہے جس میں مادی اور نفسیاتی امداد بھی شامل ہیں ۔ البتہ یہ ضرور دیکھا جانا چاہیے کہ متعلقہ افراد کن خطوں میں جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ جرائم پیشہ حلقوں کے ساتھ ان کی وابستگی مستقل نوعیت کی تو نہیں ۔
اس ضمن میں یہ اشد ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ضمن میں اپنی تمام صلاحیتیں زیادہ فعال ڈھنگ سے بروئے کار لائیں ۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ تارکینِ وطن کے اس مسئلے کا کوئی فوری اور آسان حل دستیاب نہیں ۔ ہمیں( یورپ ) اپنی اس تگ و دو کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا ہو گا ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بہت چوکنا رہنا ہو گا ۔ اور خصوصاً ان خد شات کے رد کرنا ہو گا جو عمومی قسم کے اسلام فوبیا کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں ۔
بہر کیف وہ طبقات جو مستقل یا پائیدار ڈھنگ سے داعش کے خاتمے کے خواہاں ہیں ؟ ۔ ان کے لئے میری تجویز یہ رہے گی کہ وہ اسلامی فوبیا جیسے منفی رویوں کی شدت سے مخالفت کریں ۔ مگر یہ امر اس حوالے سے ملحوظ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ داعش اور القاعدہ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ آپ تمام تارکین وطن کو اپنا مخالف اور دشمن سمجھتے ہیں کیونکہ اس قسم کا تاثر انتہائی خوفناک تنائج کا حامل ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں شدت پسندوں کو ایک نئے طرح کے موافق حالات میسر آ سکتے ہیں اور ان کے لئے ایک نئی نرسری فراہم ہو سکتی ہے ۔
تحریر: ڈیڈیئر شودت:فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں۔ وہ افغانستان، پاکستان، ایران اوروسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور‘‘، ’’پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز‘‘، ’’فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز‘‘ اور ’’یالے یونیورسٹی‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’اپری‘‘ (اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) سے ’’نان ریزیڈنٹ سکالر‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں۔ (ترجمعہ: اصغر علی شاد)‘‘۔
اٹھائیس اگست کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں