Newspaper Article 14/04/2015
تیرہ اپریل 1919 کو سانحہ جلیانوالہ باغ پیش آیا ۔ جس میں برطانوی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 400 افراد جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ساڑھے تیرہ سو لوگ جان کی بازی ہار گئے ۔ یہ اپنی نوعیت کی ایسی سفاکی تھی جسے آج بھی یاد کر کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ جلیانوالہ باغ امر تسر بھارتی پنجاب میں واقع ہے جہاں پر اس وقت کے برطانوی حاکم ’’ جنرل ایڈوائر ‘‘ کے حکم پر برطانوی قابض حکمرانوں کی تنخواہ دار پولیس نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا دیں جس میں سینکڑوں معصوم انسانوں سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا گیا تھا ۔
یہی سفاک ایڈوائر ریٹائر ہونے کے بعد برطانیہ واپس لوٹ گیا جب اس سانحہ کے تقریباً تیئس سال بعد ایک سکھ نوجوان ’’ ادھم سنگھ ‘‘ نے اسے برطانیہ میں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ یہ ادھم سنگھ سانحہ جلیانوالہ کے وقوع پذیر ہوتے وقت صرف ڈیڑھ سال کا بچہ تھا جس کا باپ بھی اس سانحہ میں مارے جانے والوں میں شامل تھا ۔ ادھم سنگھ کو برطانوی حکومت نے اس قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا ۔ بعد میں تقریباً پچاس سال بعد اندرا گاندھی کے دور میں ہندوستانی حکومت اس کی باقیات ہندوستان میں واپس لائی اور اسے شہید ادھم سنگھ کہا جانے لگا ۔ اب ہندوستان کے مختلف صوبوں میں اس نوجوان کے نام پر کئی شہر آباد ہیں ۔
مبصرین نے سانحہ جلیا نوالہ باغ کی برسی پر کہا ہے کہ اسے تاریخ کا المیہ ہی کہا جانا چاہیے کہ بالعموم تاریخ سے اکثر افراد اور قومیں سبق حاصل نہیں کرتیں ۔ تبھی آئے روز دنیا کے مختلف حصوں میں انسانی المیے رونما ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ گیارہ اپریل کی شب بلوچستان کے علاقے ’’تربت‘‘ میں بیس بے گناہ مزدوروں کو سفاک دہشتگردوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ ’’ سرفراز بگٹی ‘‘ اور وزیرا علیٰ ’’ ڈاکٹر عبدالمالک ‘‘ نے واضح الفاظ میں اس دہشتگردی کے لئے بھارت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔
پاک بھارت تعلقات اور بھارت کی داخلی سیاست کے ایک طالبِ علم ہونے کے ناطے راقم کی غیر جانبدارانہ رائے ہے کہ واقعاتی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ کے موقف میں خاصا وزن پایا جاتا ہے کہ اس میں بھارتی خفیہ ادارے ملوث ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وطنِ عزیز بزدل اور بے اصول دشمن سے نبرد آزما ہے جو نہتے شہریوں ، معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتا ۔ مخالفین کے آلہ کار ہمارے اندر پوشیدہ ہیں اور انہیں باہری ہاتھ ہر قسم کی سرپرستی اور اعانت فراہم کر رہے ہیں ۔
سپہ سالارِ پاکستان اور وزیر اعظم سمیت پوری قوم نے اس بے ضمیر دہشتگرد گروہ اور ان کے اندرونی اور بیرونی آقاؤں کی سازشوں کو ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور انشاء اللہ اس عظیم مقصد میں بہت جلد قوم کو مکمل کامیابی حاصل ہو گی ۔ یہاں اس امر کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ سانحہ تربت کی ٹائمنگ حد درجہ غور و فکر کی متقاضی ہے کیونکہ دس اپریل کو پاکستانی عدلیہ کی جانب سے ذکی الرحمان لکھوی کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا جس پر مودی سمیت بھارتی حکومت اور میڈیا نے شدید احتجاج کیا ۔ دوسری جانب اسی روز یمن کے بحران کے حوالے سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرار داد بھی منظور کی گئی ۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے اسرائیلی طرز پر پنڈتوں کے لئے الگ بستیوں کے قیام کا اعلان بھی کیا لہذا سانحہ تربت کو ان تمام عوام سے الگ کر کے دیکھا جانا غالباً مناسب نہ ہو گا ۔
ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ قوم ملک سلطنت کے ذمہ دار حلقے جوابی حکمتِ عملی مرتب کرتے ہوئے یہ سارے پہلو مد نظر رکھیں گے اور عالمی برادری بھی اس ضمن میں خاطر خواہ ڈھنگ سے اپنا اجتماعی انسانی فریضہ نبھائیں گے تا کہ علاقائی اور عالمی امن کسی نئے خطرے سے دو چار نہ ہو ۔
چودہ اپریل کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )