Newspaper Article 15/06/2014
گیارہ جون کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں اپنے پہلے خطاب کے دوران اعتراف کیا کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی حالت معاشی اور سماجی اعتبار سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے جس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔اسی ضمن میں موصوف نے کہا کہ وہ اپنے بچپن سے بہت سے بھارتی مسلمانوں کو جانتے ہیں جو سائیکل کی مرمت کا کام کرتے تھے اور آج ان کی تیسری نسل بھی وہی کام کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ مودی نے پہلی بار بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے زمینی حقائق کا اعتراف کیا ہے۔اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث بہت زیادہ تفصیل کی متقاضی ہے لیکن اس سے دو قومی نظریہ اور قیامِ پاکستان کی حقانیت بہرحال روزِ اول کی طرح ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے۔
دوسری جانب گذشتہ کچھ عرصے سے بھارتی خواتین سے اجتماعی بد اخلاقی کے واقعات خطر ناک حد تک بڑھ گئے ہیں ۔یو پی کے ضلع ’’بدایوں‘‘ میں دو چچا زاد بہنوں کو زیادتی کے بعد درخت کے ساتھ پھانسی دے کر ایسی غیر انسانی روش کا مظاہرہ کیا گیا جس کا تصور بھی کوئی نارمل معاشرہ نہیں کر سکتا ۔’’یو پی‘‘ کے ہی دوسرے ضلع ’’بہرائچ‘‘ میں ایک دوسری کمسن لڑکی کو بھی زیادتی کے بعد پھانسی دے دی گئی ۔دہلی ،ممبئی اور بھارت کے دوسرے حصوں میں بھی یہ سفاکانہ روش ’’آرڈر آف دی ڈے‘‘ بن چکی ہے ۔یو پی کے صوبائی پولیس سربراہ’’اے ایل بینر جی‘‘ کی ڈھٹائی ملاحظہ ہو کہ موصوف فرماتے ہیں کہ ایسے جرائم روٹین کا معاملہ ہے ،اس میں حیرانی والی کوئی بات نہیں ۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ ’’ملائم سنگھ یادو‘‘ نے فرمایا ہے کہ مردوں سے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہی رہتی ہیں،انہیں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔مہاراشٹر کے وزیرِ داخلہ اور کانگرسی رہنما ’’آر آر پٹیل ‘‘ کی رائے ہے کہ بھارتی معاشرہ اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ ہو چکا ہے ،اور اگر ہر گھر میں بھی پولیس متعین کر دی جائے تب بھی خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو روکنا ممکن نہیں۔مدھیہ پردیش کے وزیر اور سینیئر بی جے پی رہنما ’’ رام لال گوڈ‘‘ کی بھی کچھ ایسی ہی رائے ہے ۔ممتاز بھارتی صحافی اور تہلکہ ڈاٹ کام کے چیف ایڈیٹر ’’ترون تیج پال‘‘ پر بھی یہی الزامات ہیں۔ہندو دھرم کے ممتاز رہنما ’’آسا رام باپو‘‘ اور اس کا بیٹا ’’نارائین سائیں‘‘ بھی اسی سلسلے میں جودھپور جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔یو پی کے ۳ بار وزیرِ اعلیٰ رہے ’’نارائین دت تیواڑی‘‘ بھی کچھ ایسے ہی معاملے میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک کے بھارتی سپریم کورٹ کے جسٹس’’اے آر گنگولی‘‘ کے بھی یہی لچھن رہے ہیں۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعتا بھارت اخلاقی پستی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ویسے تو دنیا کے اکثر ملکوں (بشمول پاکستان) میں خواتین کی مجموعی صورتحال زیادہ قابلِ رشک نہیں مگر اس ضمن میں بھارت کا احوال تو کچھ زیادہ ہی ابتری کا شکار ہے۔
ہندوستان کی راجدھانی دہلی سے لے کر دور دراز کے گاؤں تک خواتین جتنی غیر محفوظ ہیں ا سکا تصور بھی کسی مہذب معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اب خود بھارت کے اپنے ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ بھی اس تلخ حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہو چکا ہے تبھی تو گذشتہ روز کثیر الاشاعت ہندی روزنامے ’’امر اجالا‘‘ نے نمایاں الفاظ میں یہ خبر چھاپی جس کا عنوان تھا ’’دہلی پھر ہوئی شرمسار‘‘۔اس میں بھارت کے مختلف حصوں میں ہونے والی ان بد اخلاقیوں کے لامتناہی سلسلے کے ضمن میں لکھا گیاکہ یہ غیر انسانی روش بھارت کے طول و عرض میں اس حد تک خطرناک روپ دھار چکی ہے کہ آنے والے دنوں میں پوری بھارتی معاشرت کسی بڑے المیے سے دوچار ہو سکتی ہے۔
اعتدال پسند بھارتی حلقوں کی رائے ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے تمام تر ترقی اور سیکولر دعوؤں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی خواتین کے حصے میں افلاس ،بے چارگی اور جسمانی استحصال کے علاوہ کچھ نہیں آیا۔اور آئے روز یہ خبر چھاپ کر گویا خود کو طفل تسلی دی جاتی ہے کہ فلاں شہر اور علاقے ایک بار پھر شرمندہ ہوا۔جانے یہ شرمندگی اور شرمساری کا سفر کب تک جاری رہے گا اور کب دہلی کے حکمرانوں کو حقیقی ندامت محسوس ہو گی اور کب وطنِ عزیز کے بھی کچھ حلقے بھارت کی نام نہاد روشن خیالی اور ترقی کے خود ساختہ افسانے سناتے رہیں گے۔
پندرہ جون کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)