Newspaper Article 18/07/2017
پاک فوج نے داعش کے خدشات سے نمٹنے اور قبائلی علاقہ جات میں مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے وادی شوال اور راجگال میں نیا آپریشن شروع کردیا جس کو ’خیبرفور‘ کا نام دیا گیا، یہ آپریشن بھی ’ردالفساد‘ کا حصہ ہے۔آپریشن شروع کیے جانے کا باقاعدہ اعلان پاک فوج کے ترجمان نے کیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بتایاکہ باجوڑ، سوات اور مہمند ایجنسی کی کلیئرنس کے بعد 16 جولائی سے خیبر فورنامی زمینی آپریشن شروع کردیاگیاہے جو ممکنہ طورپر زمینی لحاظ سے کافی مشکل ہوگا،اگرہم یہ کہیں کہ یہ فاٹا میں سب سے مشکل علاقہ ہے تو غلط نہ ہوگا، اس علاقے میں بارہ پاسز ہیں اور تقریباً اڑھائی سو مربع کلومیٹر علاقہ ہے، اس علاقے میں بارہ سے چودہ ہزار فٹ تک بلند چوٹیاں موجود ہیں، اس آپریشن کا بنیادی مقصد سرحد کے دوسری طرف بڑھتے ہوئے داعش کے خطرات سے نمٹنا اور سیکیورٹی یقینی بنانا ہے۔
اُنہوں نے بتایاکہ اس آپریشن کے دوران مختلف دہشتگرد گروپ کے شدت پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں کا خاتمہ کیاجائے گا، ایک ڈویژن فوج آپریشن میں حصہ لے گی اورایئرفورس سے بھی مدد لی جائے گی ۔ یہ آپریشن کرنا اس کیلئے ضروری تھا کیونکہ ملحقہ افغان علاقے میں گزشتہ چند ماہ سے داعش کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور پاکستان کو محفوظ بنا نا ضروری ہے، پارا چنار حملے میں پکڑے جانیوالے افراد کا تعلق بھی یہیں اور پھر داعش سے نکلا،آپریشن مکمل کرکے ہم انٹرنیشنل بارڈر کو محفوظ بنائیں گے جس سے ہمارا علاقے میں کنٹرول مزید بڑھ جائے گا، اندازوں کے مطابق 500خاندان یہاں مقیم ہیں اور ان کی سیکیورٹی ہرحال میں یقینی بنائیں گے۔
سبھی جانتے ہیں کہ بائیس فروری 2017 سے فسادیوں کے خاتمے کے لئے آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا تھا جو کہ کامیابی سے جاری ہے ۔ اس کا مقصد ملک بھر میں دہشتگردوں کا بلاتفریق خاتمہ ہے ۔ آپریشن ردالفساد کا مقصد اب تک حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور سرحدی سلامتی کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ ملک بھرکواسلحہ سے پاک کرنا،بارودی موادپرکنٹرول اس آپریشن کااہم جزو ہیں جبکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اس آپریشن کا طرہ امتیاز ہو گا۔
اس کے علاوہ خیبر ایجنسی میں بھی گذشتہ کافی عرصے سے شدت پسندوں کے خلاف پاک فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان آپریشنز کو بالترتیب خیبر ون، ٹو اور تھری کا نام دیا گیا ہے۔ اور آپریشن خیبر فور کا آغاز کیا گیا ہے ۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے چند ماہ بعد پشاور کے آرمی پبلک سکول کے بدترین سانحے کے بعد پاکستان کی فوجی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا۔
پاکستانی فورسز کی جانب سے وطنِ عزیز میں گذشتہ برس سے وقتاً فوقتاً کومبنگ آپریشنز بھی جاری ہیں جن میں ملک کے مختلف شہروں میں کارروائیاں کی گئیں اور بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔
اس تمام تناظر میں امن پسند حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے مختلف حصوں میں جاری دہشتگردی کی لعنت کو مکمل طور پر کچل دیا جائے گا اور وطنِ عزیز ہر لحاظ سے ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بنے گا ۔ ( انشاء اللہ )
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بتایاکہ باجوڑ، سوات اور مہمند ایجنسی کی کلیئرنس کے بعد 16 جولائی سے خیبر فورنامی زمینی آپریشن شروع کردیاگیاہے جو ممکنہ طورپر زمینی لحاظ سے کافی مشکل ہوگا،اگرہم یہ کہیں کہ یہ فاٹا میں سب سے مشکل علاقہ ہے تو غلط نہ ہوگا، اس علاقے میں بارہ پاسز ہیں اور تقریباً اڑھائی سو مربع کلومیٹر علاقہ ہے، اس علاقے میں بارہ سے چودہ ہزار فٹ تک بلند چوٹیاں موجود ہیں، اس آپریشن کا بنیادی مقصد سرحد کے دوسری طرف بڑھتے ہوئے داعش کے خطرات سے نمٹنا اور سیکیورٹی یقینی بنانا ہے۔
اُنہوں نے بتایاکہ اس آپریشن کے دوران مختلف دہشتگرد گروپ کے شدت پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں کا خاتمہ کیاجائے گا، ایک ڈویژن فوج آپریشن میں حصہ لے گی اورایئرفورس سے بھی مدد لی جائے گی ۔ یہ آپریشن کرنا اس کیلئے ضروری تھا کیونکہ ملحقہ افغان علاقے میں گزشتہ چند ماہ سے داعش کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور پاکستان کو محفوظ بنا نا ضروری ہے، پارا چنار حملے میں پکڑے جانیوالے افراد کا تعلق بھی یہیں اور پھر داعش سے نکلا،آپریشن مکمل کرکے ہم انٹرنیشنل بارڈر کو محفوظ بنائیں گے جس سے ہمارا علاقے میں کنٹرول مزید بڑھ جائے گا، اندازوں کے مطابق 500خاندان یہاں مقیم ہیں اور ان کی سیکیورٹی ہرحال میں یقینی بنائیں گے۔
سبھی جانتے ہیں کہ بائیس فروری 2017 سے فسادیوں کے خاتمے کے لئے آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا تھا جو کہ کامیابی سے جاری ہے ۔ اس کا مقصد ملک بھر میں دہشتگردوں کا بلاتفریق خاتمہ ہے ۔ آپریشن ردالفساد کا مقصد اب تک حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور سرحدی سلامتی کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ ملک بھرکواسلحہ سے پاک کرنا،بارودی موادپرکنٹرول اس آپریشن کااہم جزو ہیں جبکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اس آپریشن کا طرہ امتیاز ہو گا۔
اس کے علاوہ خیبر ایجنسی میں بھی گذشتہ کافی عرصے سے شدت پسندوں کے خلاف پاک فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان آپریشنز کو بالترتیب خیبر ون، ٹو اور تھری کا نام دیا گیا ہے۔ اور آپریشن خیبر فور کا آغاز کیا گیا ہے ۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے چند ماہ بعد پشاور کے آرمی پبلک سکول کے بدترین سانحے کے بعد پاکستان کی فوجی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا۔
پاکستانی فورسز کی جانب سے وطنِ عزیز میں گذشتہ برس سے وقتاً فوقتاً کومبنگ آپریشنز بھی جاری ہیں جن میں ملک کے مختلف شہروں میں کارروائیاں کی گئیں اور بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔
اس تمام تناظر میں امن پسند حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے مختلف حصوں میں جاری دہشتگردی کی لعنت کو مکمل طور پر کچل دیا جائے گا اور وطنِ عزیز ہر لحاظ سے ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بنے گا ۔ ( انشاء اللہ )
اٹھارہ جولائی کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )