Newspaper Article 25/05/2017
ہندوستان کافی دنوں سے دعوے کر رہا تھا کہ اس نے عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کر دیا ہے ۔ مگر ’’ دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے ‘‘ کے مصداق بھارت کو اس ضمن میں بھی منہ کی کھانی پڑی ۔ کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ ’’ بیجنگ ‘‘ میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں ’’روس‘‘ ، ’’ترکی ‘‘،’’ سری لنکا،’’نیپال‘‘ ، ملائشیا ‘‘، ’’ انڈونیشیاء‘‘ اور ’’ پاکستان‘‘ سمیت 29 ممالک کے سربراہان جبکہ 130 ریاستوں کے 1500 سے زائد وفود نے بھی شرکت کی ۔ اسی ضمن میں ’’انڈین ایکسپریس‘‘ ، ’’دی ہندو ‘‘ ، ’’ این ڈی ٹی وی‘‘ اور ’’ہندوستان ٹائمز ‘‘ سمیت بھارت کے کئی معروف انگریزی اور ہندی روزناموں نے مودی سرکار کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کسی لگی لپٹی کے بغیر جو کچھ کہا ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
اس کے علاوہ بھارتی ایوانِ بالا ’’ راجیہ سبھا ‘‘ کے رکن ’’ مود تیواڑی ‘‘ نے بھی کہا ہے کہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی ناقص ہونے کے سبب بیرونی ملکوں میں ہندوستان کی پوزیشن بہت خراب ہوئی ہے۔پہلے امریکہ اور اب آسٹریلیا نے غیر ملکی پروفیشنلز کو کام کرنے کا موقع فراہم کرنے والا ’’ 457 ویزا پروگرام ‘‘ منسوخ کردیا ہے جس کے سبب بیرونی ملکوں میں لاکھوں بھارتیوں کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں ۔ چین، نیپال، شری لنکا اور پاکستان سے بھارتی تعلقات کشیدہ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات بد تر سے بدترین کی جانب گامزن ہیں اور قابض دہلی سرکار حالات قابو کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔
دوسری جانب مبصرین نے کہا ہے کہ مودی نے تین سال پہلے جب حکومت سنبھالی تھی تو بھارت کے عام شہریوں کو امید ہی نہیں بلکہ کسی حد تک یقین تھا کہ دہلی سرکار ان کے بھلائی کے لئے سب کچھ نہیں تو کافی کچھ تو ضرور کرے گی ۔ مگر اب جب وہ پچھلے تین سال کے حالات و اقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ ’’ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سنا افسانہ تھا ‘‘ ۔
اب بھارتی عوام پوچھ رہے ہیں کہ مودی سرکار نے اپنی انتخابی مہم میں ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا ، اس وعدے کا کیا بنا ۔ مودی سرکار کبھی ’’ میک ان انڈیا ‘‘ ، ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ ، کبھی ’’سٹارٹ اپ انڈیا‘‘ کے نام سے نت نئی سکیموں کا اعلان کرتی رہی ، اس سے کیا فائدہ پہنچا ۔ مقبوضہ کشمیر میں کب امن ہو گا اور بھارت سرکار کی ریاستی دہشتگردی کب ختم ہو گی ۔ مودی نے وعدہ کیا تھا کہ تعلیم کے نظام کی از سرِ نو تشکیل کر کے اسے بہتر بنایا جائے گا ، نئی طرز سے تو کیا تشکیل ہوتی اس کی حالت پہلے سے بھی دگردوں ہو چکی ہے ۔
مودی کہتے تھے کہ ان کی سرکار آنے کی صورت میں بیرون ملکوں سے تمام کالا دھن واپس لایا جائے گا اور ہر بھارتی کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھر جمع کرائے جائیں گے ، وہ وعدہ کیا ہوا ۔ مودی نے ’’ سکِلڈ انڈیا ‘‘ کے نام سے نئی سکیم کا اعلان کیا ، بھارتی عوام کا سوال ہے کہ جب نوجوانوں کو نوکریاں ہی نہیں مل رہیں تو ان کی ’’ سکِلز ‘‘ سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے گا ؟ ۔ موصوف سے خود کہا تھا کہ ’’ گؤ رکھشک ‘‘ معاشرے کے لئے خطرہ ہیں ، لیکن ان کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا بلکہ جس تواتر سے بے گناہوں پر گؤ رکھشا کے نام پر حملے ہو رہے ہیں اور لوگ شہید کیے جا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ انھیں بھارت سرکار کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔
بھارتی عوام اب پوچھ رہے ہیں کہ مودی سرکار نے جو اپنی انتخابی مہم کے ذریعے لوگوں کو جو خواب دکھائے تھے کہ ان کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد ہر دن عید کا ہو گا اور ہر رات شب برات اور بھارتی عوام کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے ، اچھے دن تو کیا آتے الٹا حالات پہلے سے بھی بد تر ہو چکے ہیں ۔ آخر نوٹ بندی سے کیا فوائد حاصل ہوئے ؟ ۔
اس صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد بلا جھجھک یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی درگت بننے کے بعد بھی اگر دہلی یہ دعویٰ کرے کہ اس نے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے تو ’’ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ‘‘ ۔
اس کے علاوہ بھارتی ایوانِ بالا ’’ راجیہ سبھا ‘‘ کے رکن ’’ مود تیواڑی ‘‘ نے بھی کہا ہے کہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی ناقص ہونے کے سبب بیرونی ملکوں میں ہندوستان کی پوزیشن بہت خراب ہوئی ہے۔پہلے امریکہ اور اب آسٹریلیا نے غیر ملکی پروفیشنلز کو کام کرنے کا موقع فراہم کرنے والا ’’ 457 ویزا پروگرام ‘‘ منسوخ کردیا ہے جس کے سبب بیرونی ملکوں میں لاکھوں بھارتیوں کی نوکریاں خطرے میں پڑ گئی ہیں ۔ چین، نیپال، شری لنکا اور پاکستان سے بھارتی تعلقات کشیدہ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات بد تر سے بدترین کی جانب گامزن ہیں اور قابض دہلی سرکار حالات قابو کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔
دوسری جانب مبصرین نے کہا ہے کہ مودی نے تین سال پہلے جب حکومت سنبھالی تھی تو بھارت کے عام شہریوں کو امید ہی نہیں بلکہ کسی حد تک یقین تھا کہ دہلی سرکار ان کے بھلائی کے لئے سب کچھ نہیں تو کافی کچھ تو ضرور کرے گی ۔ مگر اب جب وہ پچھلے تین سال کے حالات و اقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ ’’ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سنا افسانہ تھا ‘‘ ۔
اب بھارتی عوام پوچھ رہے ہیں کہ مودی سرکار نے اپنی انتخابی مہم میں ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا ، اس وعدے کا کیا بنا ۔ مودی سرکار کبھی ’’ میک ان انڈیا ‘‘ ، ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ ، کبھی ’’سٹارٹ اپ انڈیا‘‘ کے نام سے نت نئی سکیموں کا اعلان کرتی رہی ، اس سے کیا فائدہ پہنچا ۔ مقبوضہ کشمیر میں کب امن ہو گا اور بھارت سرکار کی ریاستی دہشتگردی کب ختم ہو گی ۔ مودی نے وعدہ کیا تھا کہ تعلیم کے نظام کی از سرِ نو تشکیل کر کے اسے بہتر بنایا جائے گا ، نئی طرز سے تو کیا تشکیل ہوتی اس کی حالت پہلے سے بھی دگردوں ہو چکی ہے ۔
مودی کہتے تھے کہ ان کی سرکار آنے کی صورت میں بیرون ملکوں سے تمام کالا دھن واپس لایا جائے گا اور ہر بھارتی کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھر جمع کرائے جائیں گے ، وہ وعدہ کیا ہوا ۔ مودی نے ’’ سکِلڈ انڈیا ‘‘ کے نام سے نئی سکیم کا اعلان کیا ، بھارتی عوام کا سوال ہے کہ جب نوجوانوں کو نوکریاں ہی نہیں مل رہیں تو ان کی ’’ سکِلز ‘‘ سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے گا ؟ ۔ موصوف سے خود کہا تھا کہ ’’ گؤ رکھشک ‘‘ معاشرے کے لئے خطرہ ہیں ، لیکن ان کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا بلکہ جس تواتر سے بے گناہوں پر گؤ رکھشا کے نام پر حملے ہو رہے ہیں اور لوگ شہید کیے جا رہے ہیں ، ان سے لگتا ہے کہ انھیں بھارت سرکار کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔
بھارتی عوام اب پوچھ رہے ہیں کہ مودی سرکار نے جو اپنی انتخابی مہم کے ذریعے لوگوں کو جو خواب دکھائے تھے کہ ان کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد ہر دن عید کا ہو گا اور ہر رات شب برات اور بھارتی عوام کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے ، اچھے دن تو کیا آتے الٹا حالات پہلے سے بھی بد تر ہو چکے ہیں ۔ آخر نوٹ بندی سے کیا فوائد حاصل ہوئے ؟ ۔
اس صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد بلا جھجھک یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی درگت بننے کے بعد بھی اگر دہلی یہ دعویٰ کرے کہ اس نے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے تو ’’ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ‘‘ ۔
انیس مئی کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )