Newspaper Article 13/07/2014
چار جولائی کو بھارتی وزیرِ اعظم ؔ ؔ نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا اور اس دوران ’’اوڑی‘‘ میں ایک پاور پراجیکٹ کا سنگِ بنیاد رکھنے کے علاوہ اودھم پور سے کٹرہ ۲۵ کلومیٹر لمبی ریلوے لائن کا افتتاح کیا ۔یہ جگہ ’’وشنو دیوی مندر تک جانے کے لئے ہندو زائرین کے لئے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے ۔مودی کے دورے کے موقع پر مقبوضہ ریاست میں مکمل ہڑتال تھی۔خود قابض بھارتی حکمرانوں نے بھی رمضان مبارک کا پہلا جمعہ ہونے کے باوجود کشمیریوں کو جامع مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی کیونکہ پوری وادی میں کرفیو جیسی صورتحال تھی۔ ریلوے لائن کی افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے مودی نے کہا کہ ان کی حکومت کا مقصد کشمیریوں کے دل و دماغ کو اپنے اچھے سلوک سے جیتنا ہے ۔ مبصرین نے کہا ہے کہ کشمیریوں کے دل جیتنے کی بات گویا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت جو مظالم ڈھال رہا ہے وہ غالباً کسی سے بھی پوشیدہ نہیں یہ ایک الگ بحث ہے کہ دنیا کے موثر ممالک اپنی وقتی مصلحتوں کی بنا پر اس ضمن میں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اسی پس منظر میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کثیر الاشاعت بھارتی روز نامے ’سہارا‘‘نے اپنی ۳۰ جون ۲۰۱۴ کو انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکمران مقبوضہ کشمیر میں کچھ عرصہ قبل دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کے نام ونشان مٹانے کی کوشش میں مصروف ہے تاکہ انسان دوست عالمی حلقوں کے سامنے بھارت کو مزید شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔
اس خبر کی تفصیل کے مطابق مقبوضہ ریاست میں واقع انسانی حقوق کے ادارے اے ڈی پی ‘‘ یعنی ایسوی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ ‘‘نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں غیر نشاندہی والی اجتماعی قبروں کے نام ونشان مٹائے جانے پر تشوش ظاہر کی ہے اور ان قبروں کی فورنسک جانچ کرانے کا مطالبہ کیاہے۔
’’اے ڈی پی‘‘ کے ترجمان نے ۲۹ جون کو سری نگر میں ایک پر ہجوم کانفرنس سے خطاب کرتے انکشاف کیا کہ شمالی کشمیر کے علاقوں اوڑی اور بارا مولہ میں کچھ ایسی قبروں کو مٹائے جانے کی اطلاع ملی ہے کہ اوڑی کی اجتماعی قبروں میں ۱۶نا معلوم لاشیں دفن ہیں کچھ روز قبل کتوں اور دیگر جنگلی جانوروں نے ان میں سے بعض قبروں کو کھود دیا تھا جس کے بعد بھارتی حکام نے ان لاشوں کی باقیات کو فوری طور پر ہٹا دیا تھا تاکہ کشمیریوں میں غصہ اور اشتعال نہ پھیلے۔
واضع رہے کہ ایک جگہ میں ۸لاشیں دفن تھیں یہاں محکمہ جنگلات نے فوری طور پر سڑک بنا کر ان قبروں کا نام و نشان مٹا دیا ،حالانکہ کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس معاملے کی جانچ کی جاتی ۔دوسری جانب ایسی ہی قبریں مقبوضہ جموں کشمیر پولیس کی برانچ ’سپیشل آپریشن پولیس‘کے دفتر کے احاطے میں ہے اب اس مقام پر مٹی وغیرہ ڈال کر عمارت یا پارکنگ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور یہ ساری سعی اس لیے کی جارہی ہے کہ ان کے نشانوں کو ہمیشہ کے لیے مٹایا جا سکے شائد ایسی ہی کسی صورت حال کی بابت بہادر شا ہ ظفر نے کہا ہے کہ
پس مرگ قبر پر اے ظفرکوئی فاتحہ بھی کہاں پڑھے
جو ٹوٹی قبر کا تھا نشان اسے ٹھوکروں سے اڑادیا
بہرکیف ’’اے ڈی پی‘‘نے انٹرنیشل فورنسک انسٹی ٹیوٹ کی نگرانی میں ان بے نام اجتماعی قبروں کی تحقیق کا مطالبہ کیا ہے
دوسری جانب بی جے پی کوشش کررہی ہے کہ اس سال کے آخر میں مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے لیے ہونے والے نام نہاد انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے تاکہ ۸۷ رکنی اسمبلی میں کم ازکم ۴۴سیٹیں حاصل کر کے صوبائی حکومت بنائی جا سکے اس منصوبے کو بھارتی میڈیا میں بی چے پی کا آپریشن ۴۴ آف کشمیر کا نام دیا گیا ہے ۔
مودی کے دورہ کشمیر کے موقع پر ایک بار پھر وہاں کے عوام نے مکمل ہڑتال کر کے گویا دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ۔ایسے میں پاکستان وزارتِ خارجہ کی ترجمان ’’تسنیم اسلم‘‘ نے بجا طور پر اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ جموں کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اسے کسی بھی صورت بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔اس کے جواب میں بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اگرچہ حسبِ روایت ہٹ دھرمی پر مبنی بیان دیا ہے مگر توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستانی حکومت عالمی سطح پرموثر سفارتی مہم کے ذریعے دنیا کو باور کرائے گی کہ اس درینہ تنازعہ کے منصفانہ حل کے بغیر خطے میں پائیدار امن کا قیام مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
۱۱جولائی کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)