Newspaper Article 07/03/2014
بھارتی حکمران اکثر اپنی جمہوریت اور سیکولر ازم کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر گاہے بگاہے سچ دنیا کے سامنے آتا رہتا ہے جس کی تازہ مثال چند دن پہلے تب سامنے آئی جب ایشیا کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں بھارت کو عبرت ناک شکست ہوئی ۔اسی حوالے سے بھارتی صوبے اتر پردیش کے شہر میرٹھ میں واقع سوامی وویکا نند سُو بھارتی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ڈیڑھ سو کشمیری طلبا نے پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا تو بھارتی حکام نے ان تمام طلبا کو نہ صرف یونیورسٹی سے خارج کر دیا بلکہ 67 طالبِ علموں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا، جب دنیا بھر کے میڈیا نے بھارتی حکومت کے اس رویہ کا مذاق اڑایا تو مزید جگ ہنسائی سے بچنے کے لئے دہلی سرکار نے بغاوت کا مقدمہ تو واپس لے لیا البتہ ان 67 کشمیری طالبِعلموں کے خلاف نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کر کے نئے مقدمات شروع کر دیئے گئے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے گل مرگ علاقے میں بھارتی فوجیوں نے محمد یونس نامی کشمیری نوجوان کو اس ’’جر م ‘‘ میں ذبح کر ڈالا کہ وہ پاکستانی ٹیم کی جیت پر کیوں خوشی منا رہا تھا۔
بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی ،یاسین ملک اور دوسرے قائدین نے کہا ہے کہ صرف اسی ایک بات سے بین الاقوامی رائے عامہ کو اندازہ ہو جاتا چاہیے کہ بھارت کے جمہوری اور سیکولر دعووں کی اصل حقیقت کیا ہے اور دہلی کے حکمران کس قدر’’وسیع ظرف ‘‘کے مالک ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کس قدر مظالم سہہ رہے ہیں اور بھارتی حکومت انسانی حقوق کی دھجیاں کس پیمانے پر اڑا رہی ہے ۔واضح رہے کہ 7 مارچ کے ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی صوبے اُتر کھنڈ کے دارالحکومت ڈیرہ دون اور بہت سے دور افتادہ دیہاتوں میں بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت پر بہت سے لوگوں نے خوشی منائی اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ،ان لوگوں کے خلاف بھی تفتیش کی جا رہی ہے تا کہ بغاوت کے مقدمے درج کیے جا سکیں ۔
کشمیری اور بھارتی مسلمانوں سے امتیازی سلوک کی مثال چند روز پہلے بھی سامنے آئی جب راجیو گاندھی کے قاتلوں کی سزائے موت تو عمر قید میں تبدیل کر دی گئی مگر گذشتہ برس 9 فروری کو افضل گرو کو پھانسی کے تختہ پر چڑھا دیا گیا۔اسی حوالے سے پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان محترمہ ’’تسنیم اسلم ‘‘ نے 6 مارچ کو کشمیری طلبا کے خلاف ہونے والے اس غیر انسانی سلوک پر سخت اافسوس اور احتجاج کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ پاکستان ان تمام طلبا کو اپنے یہاں کی یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے کے لئے تیار ہے ۔
مبصرین کے مطابق اس سے ایک جانب پاکستانی حکومت ،عوام اور سبھی طبقات کی جانب سے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف دنیا پر ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ کشمیری قوم اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کے معاملے میں کس حد تک پر عزم ہے اور بھارتی تسلط سے کس حد تک متنفر ۔امید کی جانی چاہیے کہ دنیا بھر کے انسان دوست حلقے اس بابت اپنا مثبت انسانی فریضہ نبھائیں گے۔
نو مارچ کو ڈیلی صدائے چنار میں شائع ہوا
’’مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں‘‘