Newspaper Article 29/09/2016
ایک جانب بھارتی وزیر خارجہ ”سشما سوراج“ نے ڈھٹائی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف سراسر بے بنیاد الزام تراشیاں کیں ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر پردہ ڈالے کے لئے دہلی سرکار نے شر انگیزی کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان دہلی کی پیدا کردہ اس کشیدگی نے نیا موڑ لے لیا ہے۔ واضح رہے کہ انڈین حکومت نے 65 سال پرانے اُس معاہدے کو توڑنے کا اشارہ دیا ہے، جس کے تحت کشمیری علاقوں سے بہہ کر مشرقی اور مغربی پنجاب کے میدانوں کو سیراب کرنے والے چھ دریاؤں کے استعمال کے حقوق دونوں ممالک کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ 1960 میں ورلڈ بینک اور کئی مغربی ممالک نے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے درمیان اس معاہدے کی ثالثی کی اور یہ معاہدہ سندھ طاس معاہدے کے نام سے مشہور ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر زبردستی اپنا ناجائز تسلط جما رکھا ہے اور وہاں سے دریائے سندھ، ستلج، بیاس، راوی، چناب اور جہلم نکلتے ہیں۔ معاہدے میں ستلج، بیاس اور راوی پر انڈیا کے حق کو تسلیم کیا گیا جبکہ پاکستان کو چناب، سندھ اور جہلم پر حقوق دیے گئے۔
اوڑی کے مبینہ حملے کے بعد پہلے تو بھارت میں پاکستان پر فوجی کارروائی کی باتیں ہوئیں اور اور اسی کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے مشن کا آغاز ہوا۔سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے مسلح تصادم کی دھمکیوں یا سفارتی مورچہ بندی اپنی جگہ، لیکن اب بھارت میں پاکستان کے خلاف پانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی باتیں بر سرِ عام ہو رہی ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بی بی سی جیسے معتبر ادارے کے مطابق بھی یہ ’غیر ضروری اور غیرذمہ دارانہ باتیں ہیں۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو کوئی خصوصی رعایت نہیں دی گئی تھی بلکہ دریاؤں کے رُخ اور جغرافیائی حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اسی تناظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ اگر پانی کو جنگی ہتھیار بنا کر انڈیا نے پاکستان کی طرف جانے والے دریاؤں کا پانی روکنے کی ذرا سی بھی حماقت کی تونہ صرف کشمیر میں ہر لمحہ سیلابی کیفیت طاری رہے گی بلکہ پھر اگر چین نے یہی حربہ استعمال کر کے تبت سے آنے والے برہم پترا دریا کا رُخ موڑا تو بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں برباد ہو جائیں گی۔یہ مہذب بات نہیں مگر اگر اس معاہدے کو توڑا گیا تو انڈیا کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔ چین کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ وہ ہفتوں کے اندر برہم پترا کا رُخ موڑ سکتا ہے اور پھر تو بھارتی پنجاب، ہریانہ، دہلی اور دیگر کئی ریاستوں میں اندھیرا چھا جائے گا۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ دہلی سرکار نے سندھ طاس معاہدے پر سوال اُٹھا کر پاکستان کے اُس موقف کو خود ہی تقویت دے دی ہے جس کے تحت وہ کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیریوں کو انڈیا کے اس اقدام سے بقا کا خطرہ لاحق ہوگا اور بھارت مخالف تحریک مزید زور پکڑے گی۔ پاکستان کے مشیرِ خارجہ ”سر تاج عزیز“ نے 27 ستمبر کو واشگاف الفاظ میں کہ ”پاکستان کا پانی روکنے کی کسی بھی کوشش کو اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا“۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ”پانی کی یہ جنگ کشمیریوں کو نہیں بلکہ بھارت کو انتہائی مہنگی پڑے گی“۔
مقبوضہ کشمیر کے آبی وسائل کے سابق وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے سندھ طاس معاہدے کو توڑنے کی باتیں کرنے والوں کو انسانیت کا دشمن قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت حکومت اپنی جنونی روش پر فوری طور پر نظر ثانی کرے وگرنہ اس کے نتائج اس کے لئے اچھے نہیں ہوں گے۔
بھار ت کے ہندو جنونیوں نے گذشتہ روز یہ نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ اس معاہدے کی وجہ سے کشمیر (مقبوضہ) کو ہر سال ساڑھے چھہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان بھگتنا پڑتا ہے۔کیونکہ دہلی سرکار کو جہلم، چناب اور سندھ کے دریاؤں پر بند تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
انتیس ستمبر کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)