Newspaper Article 01/12/2013
اکیسویں صدی کا ایک سے زائد عشرہ گزر چکا ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے افراد اور اقوام کے مابین رابطوں کے ذرائع اس قدر بڑھا دیئے ہیں کہ اب دنیا حقیقی معنوں میں ایک”گلوبل ولیج” میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں- ہونے والی کوئی بھی اچھی یا بری پیش رفت ایک لمحے میں عالمی ذرائع ابلاغ میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔
ایسی صورتحال میں یہ خبر سامنے آئی ہے کہ بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر کے 3 اضلاع جموں،کھٹوعہ اور سامبا کے سامنے لائن آف کنٹرول پر 135 فٹ چوڑی،تقریبا 10 میٹر اونچی اور 198 کلو میٹر لمبی دیوار تعمیر کرنے کا حتمی منصوبہ بنا چکی ہے۔ اس حوالے سے یہ عزر تراشا گیا ہے کہ اس نام نہاد “سیفٹی کاریڈور” کی تعمیر سے پاکستان کی جانب سے مبینہ در اندازی کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔
یہ مذکورہ دیوار مقبوضہ ریاست کے 118 دیہاتوں میں سے گزرے گی جن میں سے بالترتیب جموں کے 72 دیہات، کھٹوعہ کے 17 اور سامبا ضلع کے 29 دیہات شامل ہوں گے۔ اس حوالے سے بھارتی میڈیا نے خبر دی ہے کہ انڈین ڈیفینس سیکرٹری “آر کے سنگھ” نے متعلقہ محکموں یعنی آرمی انجینئرنگ کور،نیشنل بلڈنگ کنسٹرکشن کارپوریشن،سنٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ وغیرہ سے مذاکرات مکمل کر لئے ہیں۔اس منصوبے پر خرچ آنے والے فنڈز بھارتی وزارتِ خارجہ فراہم کرے گی۔
غیر جانبدار مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ اس امر کو جنوبی ایشیا کے عوام کی بد قسمتی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ خطے کا سب سے بڑا ملک جنگی جنون میں مبتلا نظر آتا ہے۔ حالانکہ اس کے پڑوسی ممالک بالعموم اور پاکستانی قیادت خاص طور پر کوشش کر رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات مثالی حد تک خوشگوار ہو جائیں۔ اسی پس منظر میں چند روز قبل لاہور میں ایک ادبی اور ثقافتی تقریب سے خطاب کرتے وزیرِاعظم پاکستان نے تو یہاں تک کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ویزے کی پابندی تک کا خاتمہ ہو جائے۔
ظاہر سی بات ہے کہ بھارت کی جانب سے “ایل او سی” پر دیوار تعمیر کرنے اور پاکستان پر مسلسل الزام تراشیوں کے نتیجے میں پاکستانی قیادت کی ان کوششوں کو دھچکا ہی پہنچا ہے جو وہ خطے میں بالعموم اور پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے لئے خاص طور پر کر رہی ہے۔ اس حوالے سے یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بھارتی حکومت اور اس کے ادارے مسلسل یہ پراپینگڈہ کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں حالیہ سیاسی بے چینی میں پاکستانی ادارے ملوث ہیں۔ بھارتی اداروں کی اسی مہم کے ایک حصے کے طور پر بنگلہ دیش کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کچھ حلقے بھی اسی بھارتی پراپینگڈہ کو پروموٹ کر رہے ہیں۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ ان بھارتی الزامات میں قطعاً صداقت نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام و خواص کی بھاری اکثریت اپنے یہاں دہلی کے بے جا اثر و رسوخ اور دخل اندازی کو قطعاً پسند نہیں کرتی تبھی تو مارچ 2013 میں بھارتی صدر “پرنب مکرجی” کے دورہِ بنگلہ دیش کے موقع پر سابقہ وزیرِاعظم اور اپوزیشن کی سب سے اہم رہنما محترمہ “خالدہ ضیا” نے بھارتی صدر سے ملاقات سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اس بات کو دہلی نے اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف الزام تراشیوں کی نئی مہم شروع کر دی۔ امید کی جانی چاہیے کہ دہلی سرکار “ایل او سی” پر دیوار بنانے اور دوسری سرگرمیوں (بے بنیاد پراپینگڈہ وغیرہ) سے پرہیز کرے گی تا کہ پاکستانی قیادت کی امن قائم کرنے کی کوششیں بارآور ثابت ہو سکیں۔