Newspaper Article 11/05/2016
ڈیڈیئر شودت ( خصوصی تحریر )
اس امر کا تصور بھی محال ہے کہ افغانستان کے معاملے میں یورپین ، امریکی اور روسی اتنی آسانی سے کسی امر پر متفق ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ مغرب اور روس کو اس امر پر تشویش ہے کہ افغان ریاست خاصی کمزور ہے اور دہشتگرد اس سر زمین پر دوبارہ ابھر سکتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اور کچھ وسطی ایشیائی ملکوں میں باہمی تعاون کیوں مضبوط ہو رہا ہے ۔ یورپ کے خیال میں ازبکستان کو خاص طور پر اس حوالے سے خاصی تشویش ہے کہ افغانستان میں داعش اور ازبکستان اسلامک موومنٹ میں باہمی تعاون فروغ پا سکتا ہے ۔
بلکہ کر غیزستان بھی خطے میں ایسا ملک ہے جسے یہ تشویش لاحق ہے کہ روسی اس بات سے ذرا بھی نہیں ہچکچائیں گے کہ وہ کسی خطرے کی صورت میں کر غیز سیکورٹی فورسز کو ایک جانب کر کے براہ راست خود مداخلت کاروں کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ۔
روسی وزارتِ دفاع کے آئین کے پیرا گراف 2 کو استعمال کرتے ہوئے ’’ انا طولے انٹینو ‘‘ نے مارچ 2015 میں میں یہ بھی کہا تھا کہ سینٹرل ایشیاء میں داعش کی کسی مداخلت کو روکنے کے لئے تاجک آرمی کو زیادہ اہمیت دینی ہو گی تا کہ وہ ان کے خلاف لڑ سکے ۔
پہلی نظر میں مندرجہ بالا صورتحال کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ یورپ کے لئے یہ اچھا موقع ہے کیونکہ سینٹرل ایشیاء کے استحکام سے اسے بھی دلچسپی ہے ۔ اور افغان خود بھی چاہتے ہیں کہ روسی امداد کریں ۔ یورپ دیکھ چکا ہے کہ افغانستان کے اول نائب صدر ’’ جنرل عبدا لرشید دوستم ‘‘ جب ماسکو اور گروزنی گئے تو ہتھیاروں کی اور دوسری فوجی امداد مانگنے کے لئے وہ وسطی ایشیائی ملکوں میں گئے ۔ جہاں پر ’’ دوستم ‘‘ کے پہلے سے خاصے اہم روابط تھے ۔ مگر وہ ہمیشہ خالی ہاتھ ہی لوٹے ۔
مگر روس کے معاملے میں یہ صورتحال ایسی نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ اہم ہتھیار دینے پر تیار رہتا ہے ۔ جبکہ دیگر ممالک اس حوالے سے محتاط قسم کے وعدوں پر ٹرخا دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روسی فوجیوں کو افغانستان کبھی نہیں بھیجا جائے گا ۔ یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ جب یورپ سابقہ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کو یاد کرتا ہے تو ایسے میں روسی اس امر سے بجا طور پر پرہیز کرتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکیوں کے ساتھ کشیدگی انتہا سے بڑھ جائے ۔ ہر کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ روسی حکمران افغان مسئلے پر مغرب کے ساتھ ’’ جیو پولیٹیکل ‘‘ مقابلے میں نہیں پڑنا چاہتے ۔ البتہ دہشتگردی کا رسک ، منشیات کی سمگلنگ وغیرہ ا س خطے سے باقی دنیا میں جا ری ہے ،
خاص طور پر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ’’ یوریشیا ‘‘ کے ساتھ ساتھ یورپ اور ایران میں یہ عمل تیز ہے ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماسکو منشیات کے پھیلاؤ کے خلاف حقیقت میں پر عزم ہے ۔ اسی وجہ سے روسی فیڈریشن نے سال 2017 تک کے مختص کیے گئے فنڈز افغانستان اور پاکستانی حکام کو دینے کا وعدہ کیا ہے تا کہ وہ منشیات کی سمگلنگ کا تدارک کر سکیں ۔ ماسکو میںیہ تاثر پختہ ہے کہ دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی افغانستان میں موجودگی روس کے قومی مفادات کے لئے بڑا خطرہ رہے گی ۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ روس اپنے اس مقصد کے لئے اتحادیوں کی تلاش کو محض کا بل کی آئینی حکومت تک محدود نہیں رکھنا چاہتا ۔
سال 2015 کے آخر میں روسی وزارتِ دفاع کے ترجمان ’’ ماریا وخا روف ‘‘ کے بیان نے اس امر کو واضح کر دیا جس میں انھوں نے کہا کہ ان کے ملک اور طالبان کے مابین مذاکراتی رابطہ ہوا ہے ۔ جس میں داعش کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے معلومات کا باہمی تبادلہ کیا گیا ہے ۔ اگرچہ بعض طالبان معلومات کے اس تبادلے کی تردید کرتے ہیں ۔ البتہ طالبان کا دوسرا گروہ اعتراف کرتا ہے کہ معلومات کا یہ رابطہ خاصی بڑی سطح پر ہوا ہے ۔ دوسری طرف روسی افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کو محدود بھی کر رہے ہیں ۔ بہر کیف مغربی اور دوسرے ذرائع کنفرم کرتے ہیں کہ 2015 کے آخر میں جو کچھ کہا گیا ، وہ صحیح تھا کہ روس بیک وقت افغان حکومت اور طالبان سے رابطوں میں ہے ۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مرحلے پر روس کو دوہرے معیار کا حامل قرار دینا مناسب ہو گا ؟ ۔ ہم پہلے ہی اس قسم کے تجزیے پر تنقید کر چکے ہیں جسے انتہائی سادگی کی بات ہی کہا جا سکتا ہے ۔ کیوں اس پیچیدہ جیو پولیٹیکل سچویشن میں فوری طور پر کسی نتیجے پر پہنچنا اتنا آسان بھی نہیں ۔ کیونکہ روس ہو یا کوئی دوسرا ملک ، وہ دوسروں کے مفادات کے تحفظ کی بجائے بجا طور پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دیتا ہے اور اسی وجہ سے اس طرز کی پالیسی کو قومی مفادات کے تحفظ کی اچھی پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال میں تمام فریقین کی پوزیشنوں کو بہتر ڈھنگ سے سمجھنے کا مظاہرہ کیا جائے ۔ حقیقت میں روس چین، امریکہ ، ایران اور پاکستان کے سفارتی طرزِ عمل ہی کی پیروی کر رہا ہے ۔ جس کا محور یہ ہے کہ افغانستان میں ہر صورت میں امن قائم کیا جائے اور وہاں کی آئینی حکومت اور طالبان کو قریب لایا جائے ۔ تا کہ سنکیانگ کے اقتصادی مفادات کو خطے میں تحفظ مل سکے ۔
پاکستانی حکمرانوں کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ طالبان افغانستان کی پشتون آبادی کی سیاسی نمائندگی کرتے ہیں اور یورپ اس کو مسترد کر کے اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا ۔ 2010 سے امریکی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ کابل کی آئینی حکومت اور ایران بھی اس امر پر متفق ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
اگر سب طالبان کے ساتھ نہیں بھی تو ان میں سے کچھ کے ساتھ یہ بات چیت جاری ہے ۔ ماسکو کی ترجیحات واضح ہیں کہ وہ داعش
کے خلاف لڑائی میں وہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں کسی نئی دہشتگردی کا چیلنج جنم نہ لے سکے جو آگے چل کر سینٹرل ایشیاء کو عدم استحکام میں مبتلا کر دے ۔ اگرچہ کچھ تجزیہ کار اس موقف سے اختلاف بھی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ماسکو داعش کو ترجیحی بنیادوں پر اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے جو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ خود روسی سر زمین کے لئے بھی خطرہ ہیں ۔ کیونکہ ستمبر 2015 میں ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں داعش نے اس عزم کا حلفیہ اظہار کیا تھا کہ وہ پورے شمالی قفقاز کو آزاد کرائے گا ۔
روسی صدر ’’ پیوٹن ‘‘ نے چند ماہ پہلے ایک خطاب میں اعتراف کیا تھا کہ کم ازکم سات ہزار روسی اور وسطی ایشیائی باشندے داعش کا حصہ ہیں ۔ حقیقت میں غیر ملکی لڑاکوں میں روسی شہری سب سے زیادہ متحرک ہیں ۔ ان میں سے کچھ واپس روس میں آتے ہیں تو یقینی طور پر وہ روس پر حملوں میں پیش پیش ہوں گے ۔ جہادی خلافت نے واضح کیا ہے کہ وہ روسیوں سے انتقام لیں گے ۔ دوسری جانب نائن الیون کے بعد کے طالبان نے ماسکو کے حوالے سے کبھی ایسی دھمکی آمیز زبان استعمال نہیں کی ۔ بلکہ اس کے بر عکس داعش کے سامنے آنے کے بعد سے یہ طالبان اس امر پر زور دیتے ہیں کہ ان کی اپنی جدو جہد افغانستان تک محدود ہے ۔
مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ روس کی افغان پالیسی یہ ہے کہ عدم استحکام پر مشتمل ان قوتوں کا خاتمہ کیا جائے جو عراق اور شام کو تباہ کر کے افغانستان اور روس میں اپنے پنجے گاڑنا چاہتی ہیں ۔ اسی وجہ سے روس کی کوشش ہے کہ تمام با اثر حلقے طالبان کے ساتھ بات چیت کریں تا کہ داعش کے خطرے سے بہتر ڈھنگ سے نمٹا جا سکے ۔ یوں بھی روس تسلیم کر چکا ہے کہ گذشتہ چودہ سال میں اگر دنیا کی سب سے بڑی طاقت طالبان کا خاتمہ نہیں کر سکی تو مستقبل قریب میں بھی یہ ممکن نہیں اور وہ آج بھی افغانستان میں بڑے سیاسی کھلاڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ نہ صرف طالبان کی حربی صلاحیتیں کافی ہے بلکہ وہ افغانستان میں قوم پرستی کے حوالے سے اپنی مضبوط جڑیں رکھتے ہیں ۔ اور وہ انھی وجوہات کی بنا پر وہ دوبارہ طاقت ور سیاسی فریق کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔
یورپ چاہے اس صورتحال کو پسند نہ کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ ماسکو بلکہ تہران ، اسلام آباد ، واشنگٹن اور بیجنگ ان زمینی حقائق کر رد کرنے کے لئے تیار نہیں کہ طالبان ایک بڑی حقیقت ہیں اور اب طالبان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کو مزید عدم استحکام سے بچانے کے لئے پڑوسی ملکوں کے ساتھ مل کر جدو جہد کریں اور یہی افغانستان میں روسی پالیسی کی واضح سمت ہے اور امکان یہی ہے کہ سال 2016 میں بھی
اس امر کا تصور بھی محال ہے کہ افغانستان کے معاملے میں یورپین ، امریکی اور روسی اتنی آسانی سے کسی امر پر متفق ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ مغرب اور روس کو اس امر پر تشویش ہے کہ افغان ریاست خاصی کمزور ہے اور دہشتگرد اس سر زمین پر دوبارہ ابھر سکتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اور کچھ وسطی ایشیائی ملکوں میں باہمی تعاون کیوں مضبوط ہو رہا ہے ۔ یورپ کے خیال میں ازبکستان کو خاص طور پر اس حوالے سے خاصی تشویش ہے کہ افغانستان میں داعش اور ازبکستان اسلامک موومنٹ میں باہمی تعاون فروغ پا سکتا ہے ۔
بلکہ کر غیزستان بھی خطے میں ایسا ملک ہے جسے یہ تشویش لاحق ہے کہ روسی اس بات سے ذرا بھی نہیں ہچکچائیں گے کہ وہ کسی خطرے کی صورت میں کر غیز سیکورٹی فورسز کو ایک جانب کر کے براہ راست خود مداخلت کاروں کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ۔
روسی وزارتِ دفاع کے آئین کے پیرا گراف 2 کو استعمال کرتے ہوئے ’’ انا طولے انٹینو ‘‘ نے مارچ 2015 میں میں یہ بھی کہا تھا کہ سینٹرل ایشیاء میں داعش کی کسی مداخلت کو روکنے کے لئے تاجک آرمی کو زیادہ اہمیت دینی ہو گی تا کہ وہ ان کے خلاف لڑ سکے ۔
پہلی نظر میں مندرجہ بالا صورتحال کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ یورپ کے لئے یہ اچھا موقع ہے کیونکہ سینٹرل ایشیاء کے استحکام سے اسے بھی دلچسپی ہے ۔ اور افغان خود بھی چاہتے ہیں کہ روسی امداد کریں ۔ یورپ دیکھ چکا ہے کہ افغانستان کے اول نائب صدر ’’ جنرل عبدا لرشید دوستم ‘‘ جب ماسکو اور گروزنی گئے تو ہتھیاروں کی اور دوسری فوجی امداد مانگنے کے لئے وہ وسطی ایشیائی ملکوں میں گئے ۔ جہاں پر ’’ دوستم ‘‘ کے پہلے سے خاصے اہم روابط تھے ۔ مگر وہ ہمیشہ خالی ہاتھ ہی لوٹے ۔
مگر روس کے معاملے میں یہ صورتحال ایسی نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ اہم ہتھیار دینے پر تیار رہتا ہے ۔ جبکہ دیگر ممالک اس حوالے سے محتاط قسم کے وعدوں پر ٹرخا دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روسی فوجیوں کو افغانستان کبھی نہیں بھیجا جائے گا ۔ یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ جب یورپ سابقہ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کو یاد کرتا ہے تو ایسے میں روسی اس امر سے بجا طور پر پرہیز کرتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکیوں کے ساتھ کشیدگی انتہا سے بڑھ جائے ۔ ہر کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ روسی حکمران افغان مسئلے پر مغرب کے ساتھ ’’ جیو پولیٹیکل ‘‘ مقابلے میں نہیں پڑنا چاہتے ۔ البتہ دہشتگردی کا رسک ، منشیات کی سمگلنگ وغیرہ ا س خطے سے باقی دنیا میں جا ری ہے ،
خاص طور پر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ’’ یوریشیا ‘‘ کے ساتھ ساتھ یورپ اور ایران میں یہ عمل تیز ہے ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماسکو منشیات کے پھیلاؤ کے خلاف حقیقت میں پر عزم ہے ۔ اسی وجہ سے روسی فیڈریشن نے سال 2017 تک کے مختص کیے گئے فنڈز افغانستان اور پاکستانی حکام کو دینے کا وعدہ کیا ہے تا کہ وہ منشیات کی سمگلنگ کا تدارک کر سکیں ۔ ماسکو میںیہ تاثر پختہ ہے کہ دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی افغانستان میں موجودگی روس کے قومی مفادات کے لئے بڑا خطرہ رہے گی ۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ روس اپنے اس مقصد کے لئے اتحادیوں کی تلاش کو محض کا بل کی آئینی حکومت تک محدود نہیں رکھنا چاہتا ۔
سال 2015 کے آخر میں روسی وزارتِ دفاع کے ترجمان ’’ ماریا وخا روف ‘‘ کے بیان نے اس امر کو واضح کر دیا جس میں انھوں نے کہا کہ ان کے ملک اور طالبان کے مابین مذاکراتی رابطہ ہوا ہے ۔ جس میں داعش کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے معلومات کا باہمی تبادلہ کیا گیا ہے ۔ اگرچہ بعض طالبان معلومات کے اس تبادلے کی تردید کرتے ہیں ۔ البتہ طالبان کا دوسرا گروہ اعتراف کرتا ہے کہ معلومات کا یہ رابطہ خاصی بڑی سطح پر ہوا ہے ۔ دوسری طرف روسی افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کو محدود بھی کر رہے ہیں ۔ بہر کیف مغربی اور دوسرے ذرائع کنفرم کرتے ہیں کہ 2015 کے آخر میں جو کچھ کہا گیا ، وہ صحیح تھا کہ روس بیک وقت افغان حکومت اور طالبان سے رابطوں میں ہے ۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مرحلے پر روس کو دوہرے معیار کا حامل قرار دینا مناسب ہو گا ؟ ۔ ہم پہلے ہی اس قسم کے تجزیے پر تنقید کر چکے ہیں جسے انتہائی سادگی کی بات ہی کہا جا سکتا ہے ۔ کیوں اس پیچیدہ جیو پولیٹیکل سچویشن میں فوری طور پر کسی نتیجے پر پہنچنا اتنا آسان بھی نہیں ۔ کیونکہ روس ہو یا کوئی دوسرا ملک ، وہ دوسروں کے مفادات کے تحفظ کی بجائے بجا طور پر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دیتا ہے اور اسی وجہ سے اس طرز کی پالیسی کو قومی مفادات کے تحفظ کی اچھی پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال میں تمام فریقین کی پوزیشنوں کو بہتر ڈھنگ سے سمجھنے کا مظاہرہ کیا جائے ۔ حقیقت میں روس چین، امریکہ ، ایران اور پاکستان کے سفارتی طرزِ عمل ہی کی پیروی کر رہا ہے ۔ جس کا محور یہ ہے کہ افغانستان میں ہر صورت میں امن قائم کیا جائے اور وہاں کی آئینی حکومت اور طالبان کو قریب لایا جائے ۔ تا کہ سنکیانگ کے اقتصادی مفادات کو خطے میں تحفظ مل سکے ۔
پاکستانی حکمرانوں کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ طالبان افغانستان کی پشتون آبادی کی سیاسی نمائندگی کرتے ہیں اور یورپ اس کو مسترد کر کے اس کے وجود سے انکار نہیں کر سکتا ۔ 2010 سے امریکی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ کابل کی آئینی حکومت اور ایران بھی اس امر پر متفق ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
اگر سب طالبان کے ساتھ نہیں بھی تو ان میں سے کچھ کے ساتھ یہ بات چیت جاری ہے ۔ ماسکو کی ترجیحات واضح ہیں کہ وہ داعش
کے خلاف لڑائی میں وہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں کسی نئی دہشتگردی کا چیلنج جنم نہ لے سکے جو آگے چل کر سینٹرل ایشیاء کو عدم استحکام میں مبتلا کر دے ۔ اگرچہ کچھ تجزیہ کار اس موقف سے اختلاف بھی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ماسکو داعش کو ترجیحی بنیادوں پر اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے جو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ خود روسی سر زمین کے لئے بھی خطرہ ہیں ۔ کیونکہ ستمبر 2015 میں ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں داعش نے اس عزم کا حلفیہ اظہار کیا تھا کہ وہ پورے شمالی قفقاز کو آزاد کرائے گا ۔
روسی صدر ’’ پیوٹن ‘‘ نے چند ماہ پہلے ایک خطاب میں اعتراف کیا تھا کہ کم ازکم سات ہزار روسی اور وسطی ایشیائی باشندے داعش کا حصہ ہیں ۔ حقیقت میں غیر ملکی لڑاکوں میں روسی شہری سب سے زیادہ متحرک ہیں ۔ ان میں سے کچھ واپس روس میں آتے ہیں تو یقینی طور پر وہ روس پر حملوں میں پیش پیش ہوں گے ۔ جہادی خلافت نے واضح کیا ہے کہ وہ روسیوں سے انتقام لیں گے ۔ دوسری جانب نائن الیون کے بعد کے طالبان نے ماسکو کے حوالے سے کبھی ایسی دھمکی آمیز زبان استعمال نہیں کی ۔ بلکہ اس کے بر عکس داعش کے سامنے آنے کے بعد سے یہ طالبان اس امر پر زور دیتے ہیں کہ ان کی اپنی جدو جہد افغانستان تک محدود ہے ۔
مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ روس کی افغان پالیسی یہ ہے کہ عدم استحکام پر مشتمل ان قوتوں کا خاتمہ کیا جائے جو عراق اور شام کو تباہ کر کے افغانستان اور روس میں اپنے پنجے گاڑنا چاہتی ہیں ۔ اسی وجہ سے روس کی کوشش ہے کہ تمام با اثر حلقے طالبان کے ساتھ بات چیت کریں تا کہ داعش کے خطرے سے بہتر ڈھنگ سے نمٹا جا سکے ۔ یوں بھی روس تسلیم کر چکا ہے کہ گذشتہ چودہ سال میں اگر دنیا کی سب سے بڑی طاقت طالبان کا خاتمہ نہیں کر سکی تو مستقبل قریب میں بھی یہ ممکن نہیں اور وہ آج بھی افغانستان میں بڑے سیاسی کھلاڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ نہ صرف طالبان کی حربی صلاحیتیں کافی ہے بلکہ وہ افغانستان میں قوم پرستی کے حوالے سے اپنی مضبوط جڑیں رکھتے ہیں ۔ اور وہ انھی وجوہات کی بنا پر وہ دوبارہ طاقت ور سیاسی فریق کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔
یورپ چاہے اس صورتحال کو پسند نہ کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ ماسکو بلکہ تہران ، اسلام آباد ، واشنگٹن اور بیجنگ ان زمینی حقائق کر رد کرنے کے لئے تیار نہیں کہ طالبان ایک بڑی حقیقت ہیں اور اب طالبان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کو مزید عدم استحکام سے بچانے کے لئے پڑوسی ملکوں کے ساتھ مل کر جدو جہد کریں اور یہی افغانستان میں روسی پالیسی کی واضح سمت ہے اور امکان یہی ہے کہ سال 2016 میں بھی
روسی سفارت کاری کے اس موقف میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس پر وہ غالباً سرد جنگ کے دور کی مانند عمل پیرا رہے گا ۔
تحریر : ڈیڈیئر شودت . “فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں ۔ وہ افغانستان ، پاکستان ، ایران
اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’ سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز ‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور ‘‘ ، ’’ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز ‘‘ ، ’’ فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز ‘‘ اور ’’ یالے یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’ اپری ‘‘ ( اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) سے ’’ نان ریزیڈنٹ سکالر ‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں ۔ ( ترجمعہ : اصغر علی شاد ) ‘‘
۔گیارہ مئی کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )