Newspaper Article 07/04/2015
سات اپریل کو سانحہ ’’ گیاری ‘‘ کی تیسری برس منائی جا رہی ہے کیونکہ سات اپریل 2012 کو سیاچن کے مقام ’’ گیاری ‘‘ میں برفانی تودہ گرنے سے پاک فوج کے 140 افسر اور جوان ہزاروں ٹن برف اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے ۔ ان کے یومِ شہادت پر قوم کا ہر فرد اپنے ان جاں نثاروں کو خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے ۔ یوں بھی افواجِ پاکستان نے ہمیشہ ہی وطن کی خدمت کے لئے اپنے لہو سے ایسے چرغ روشن کیے ہیں جن کی روشنی آئندہ نسلوں کے لئے بھی مشعلِ راہ ثابت ہو گی ۔
سانحہ گیاری کے تین برس مکمل ہونے کے موقع پر مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایک سے زائد مرتبہ بھارت کو پیش کش کی جا چکی ہے کہ سیاچن گلیشیئر سے دونوں ممالک اپنی افواج واپس بلا لیں تا کہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے بلکہ سیاچن پر ہونے والے اخراجات دونوں ملک اپنے عوام کی فلاح پر خرچ کر سکیں ۔ علاوہ ازیں ماحول کو در پیش خطرات میں بھی کمی آ سکے ۔
ماہرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ 1984 میں بھارتی فوج نے سیاچن پر اپنا ناجائز تسلط جما لیا تھا جس کے جواب میں پاکستان کو بھی اپنی فوجیں وہاں متعین کرنا پڑیں ۔ یوں ہندوستان کے اس ناجائز قبضے کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ممالک کے معاشی مسائل پر خاصا بوجھ پڑ رہا ہے بلکہ قابض انڈین آرمی نے گذشتہ 31 برسوں میں اس گلیشئر کو اتنا پراگندہ کر دیا ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کی جانب آنے والے پانی پڑ اس کے اثرات خطرناک حد تک مرتب ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں یہ گلیشئر پگھل کر ناقابلِ تصور خطرات کا باعث بن سکتا ہے ۔
یاد رہے کہ 2005 میں پاک بھارت حکومتیں اس امر پر متفق ہو چکی تھیں کہ سیاچن سے اپنی افواج واپس بلا لی جائیں۔ تب بھارتی وزیر اعظم ’’ منموہن سنگھ ‘‘ نے تو باقاعدہ اس امر کا اعلان بھی کیا تھا کہ سیاچن کو ’’ پیس پارک ‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے گا مگر پھر انڈین آرمی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا یوں بھارتی فوج کے ویٹو کی وجہ سے یہ معاہدہ پروان نہ چڑھ سکا ۔ اس کے بعد بھی پاکستان کی جانب سے ایک سے زائد پرتبہ ایسی پیش کشیں سامنے آئیں ۔
خصوصاً سات اپریل 2012 کو سیاچن کے مقام گیاری پر جب برفانی تودہ گرنے سے افواجِ پاکستان کے تقریباً 150 جوان اور افسر شہید ہوئے تو پاک آرمی کی اعلیٰ ترین قیادت کی جانب سے بھی بھارت اور پاکستان کے بیک وقت انخلاء کی تجویز سامنے آئی مگر بھارتی فوج نے تب بھی اس تجویز پر کان نہ دھرے ۔ حالانکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سیاچن کے مقام پر انڈین آرمی کا مالی اور جانی نقصان پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے بھارت کی جانب سے ہٹ دھرمی کا رویہ برقرار ہے ۔
تبھی تو انڈین ایکسپریس کے سابق چیف ایڈیٹر ’’ شیکھر گپتا‘‘ نے سات دسمبر 2013 کو اپنے مضمون ’’ نیشنل انٹرسٹ ، ڈس آرمنگ کشمیر ‘‘ میں لکھا کہ ’’ یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں بھارتی فوج کے پاس خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کے حوالے سے ویٹو کا اختیار آ چکا ہے ۔ اسی وجہ سے نہ تو کشمیر میں خاطر خواہ بہتری ہو رہی ہے بلکہ سیاچن کا مسئلہ بھی حل حل نہیں ہو پا رہا ‘‘ ۔
اسی پس منظر میں چار دسمبر 2013 کو پاک وزیر اعظم کے قومی سلامتی اور امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے ریڈیو پاکستان سے انٹرویو کے دوران بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ سیاچن سے اپنی افواج واپس بلا لے کیونکہ وہاں قابض بھارتی فوج کی موجودگی سے ماحول کے لئے خطرناک اندیشے پیدا ہو رہے ہیں جس کے منفی اثرات براہ راست پاکستان پر پڑ رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ کسی بڑے سانحے کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں ۔
اسی ضمن میں مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے چند نام نہاد ’’امن پسند ‘‘ اکثر جوہری پروگرام کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اسی حوالے سے چند ہفتے پہلے ڈاکٹر عبدالحمیدنیئر کی کتاب سامنے آئی جس کا اردو ترجمہ ’’ طاقت کا سراب ‘‘ کے عنوان سے سامنے آیا جو کہ پرویز ہود بھائی اور چند دیگر کے مضامین کا مجموعہ ہے ۔ اس میں بھارت کی نام نہاد دوستی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں اور پاکستانی قوم کے ذہنوں میں مایوسی پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے ۔
راقم کی رائے ہے کہ ایسے عناصر غالباً کسی مخصوص ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں وگرنہ انھیں علم ہوتا کہ ابھی محض چند ماہ پہلے یعنی 30 اکتوبر 2014 کو بھارتی اسٹبلشمنٹ کے جریدے ’’ انڈین ڈیفنس ریویو‘‘ میں ڈاکٹر امر جیت سنگھ کی تحریر بعنوان ’’ وائی دی ایگزسٹنس آف پاکستان اس ناٹ ان انڈیا ز انٹرسٹ ‘‘ شائع ہوئی ۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی بالادست طبقات وطنِ عزیز کے حوالے سے کتنے مکروہ عزائم رکھتے ہیں ۔ ایسے میں وہ ملکی یا غیر ملکی عناصر جو پاکستانی افواج اور اس کے ایٹمی پروگرام کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، ان کے طرزِ عمل کی بابت ہر پاکستانی کے ذہن میں تحفظات پیدا ہونا ایک فطری امر ہے ۔
چونکہ خود راقم نے ایک طویل عرصہ بھارتی جیلوں اور را کی قید میں گزارا ہے جس کی تفصیل اپنی خود نوشت تصنیف ’’ را کے دیس میں اسیری کے نو سال ‘‘ میں میں تحریر کی ہے اور اس دوران مجھے بھارتی بالا دست طبقات کی سوچ اور عمل کو بہت قریب سے دیکھنے کے مواقع میسر آئے ۔ لہذ ااپنے اس طویل مشاہدے کی بنا پر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے عزائم کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر وطنِ عزیز کی سلامتی کی خاطر ہر ممکن ڈھنگ سے مستعد رہنا دورِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ لیبیا کے قذافی نے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی غلطی کی تھی جس کا خمیازہ خود ان کی ذات اور لیبیا کو جس انداز سے بھگتنا پڑا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ‘‘۔
یوں بھی ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہی ہے خصوصاً جب آپکے مخالف بھارتی حکمرانوں جیسے ’’ انسان دوست ‘‘ اور ’’ امن پسند ہوں ‘‘۔
سات اپریل کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )