Newspaper Article 22/01/2015
آٹھ جنوری 2015 کو ہونے والے سری لنکا کے صدراتی الیکشن میں سابق صدر ’’مہندرراج پکشے‘‘غیر متوقع طور پر ہار گئے اور ’’سری سینا‘‘جیت گئے ۔مبصرین کی رائے ہے کہ جیت ہار کے اس کھیل میں بھارتی خفیہ ادارے’’را‘‘نے بنیادی کردار ادا کیاہے اوریوں سابق صدر سے گویا بھارت نے اس بات کا انتقام لے لیا کہ وہ اپنے دس سالہ دور حکومت میں چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیوں کر رہے تھے۔ سری لنکن اخبار’’سنڈے ٹائمز‘‘نے29دسمبر کے اشاعت میں انکشاف کیا کہ دالحکومت ’کولمبو‘میں ’’را‘‘کے سٹیشن چیف’’کے النگو، ‘‘کو سری لنکا سے اپنی منفی سرگرمیوں کی بنا پر نکال دیا گیا ہے کیوں کہ موصوف نے اس سارے معالمے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق ’’ کے النگو‘‘ نے صدارتی الیکشن کے شیڈول کا علان ہونے کے بعد نومبر میں سابق صدر کی کابینہ کے وزیر صحت ’’ سری سینا ‘‘ کو استعفیٰ دینے پر راضی کیا اور سری لنکا کی مختلف اپوزیشن پارٹیوں کو رضا مند کیا کہ وہ راج پکشے کے مقابلے پر’’ سری سینا‘‘ کو متفقہ امید وار کے طور پر سامنے لائیں ۔ اس ضمن میں سابق وزیر اعظم ’’ وکرم سنگھے ‘‘ اور سابق خاتون صدر ’’ کمارا ٹنگا‘‘ سے را کے سٹیشن چیف نے خصوصی ملاقاتیں کیں ۔ سری لنکا کے سابق وز یر دفاع نے ان معاملات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ نومبر میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر ’’ اجیت ڈووال ‘‘ کے دورہ سری لنکا کے دوران انھوں نے موصوف سے را کی باقاعدہ شکایت بھی کی تھی ۔
صدارتی الیکشن کے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی سری لنکا میں بھارتی سفیر نے چند گھنٹوں کے اند ر نئے صدر ’’ سری سینا‘‘ سے خصوصی ملاقات کر کے مبارک باد دی جبکہ سری لنکا میں چین کے سفیر کو نئے صدر نے ملاقات کے لئے 6 دن بعد کا وقت دیا ۔ علاوہ ازیں 17 جنوری کو نئے وزیر خارجہ نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ بھارت کا کیا اور اعلانیہ کہا کہ ا ب سری لنکا کی فارن پالیسی کی گذشتہ ’’خامیوں ‘‘ کو دور کیا جائے گا اور بھارت سے اچھے تعلقات سرِ فہرست ہوں گے اور اگلے ماہ نئے سری لنکن صدر بھارت کا دورہ کریں گے ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ یوں تو بھارت کی پوری تاریخ اس امر کی مظہر ہے کہ اس نے اپنے ہمسایہ ملکوں کے خلاف توسیع پسندی پرمبنی پالیسیوں کو ہی اپنی بنیادی حکمتِ عملی بنا رکھا ہے ۔ تبھی تو دہلی سرکار نے سری لنکا میں خانہ جنگی کی ایسی آگ بھڑکائی جو تقریباً 30 برس تک جاری رہی اور جس مین تقریباً ایک لاکھ بے گناہ افراد ہلاک ہوئے ۔
اس کے ساتھ بھوٹان ، نیپال ، بنگلہ دیش اور مالدیپ مختلف اوقات میں بھارتی ریشہ دوانیوں کا شکا ر ہوتے رہے ۔ چین کے علاقے’’ جنوبی تبت‘‘ کو تاحال بھارت نے ارونا چل پردیش کا نام دے کر اس کے او پر اپنا نا جائز تسلط جما رکھا ہے ۔ مشرقی پاکستان قو ت کے زور پر الگ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ تقسیم ہند کے بنیادی فارمولے کو نظر انداز کرتے ہوئے جونا گڑھ ، مناور ، دکن حیدر آباد اور مقبوضہ کشمیر بھارتی حکمرانوں نے ہڑپ کر رکھے ہیں ۔ تبھی تو چند ماہ پہلے جون 2014 میں تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ’’ چندر شیکھر ریڈی ‘‘ کی صاحبزادی اور لوک سبھا کی نو منتخب خاتون رکن ’’ کے کویتا‘‘ نے کہا تھا کہ بھارت نے کشمیر پر قوت کے زور پر قبضہ کر رکھا ہے لہذا بھارت کی بین االاقوامی جغرافیائی سرحدوں کا نئے سرے سے تعین ہونا چاہیے ۔
علاوہ ازیں گذشتہ 7 برس سے بھارت دنیا بھر میں اسلحہ خریداری کرنے والے ملکوں میں سر فہرست ہے ۔
اس صوتحال کے ممکنہ محرکات کا تجزیہ کرتے ماہرین نے کہا ہے کہ 31 جولائی 2014 کو ریٹائر ہوتے وقت بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے پاکستان کے خلاف انتہائی نا زیبا زبان استعمال کی اور اس کے اگلے ہی روز نئے بھارتی فوجی سربراہ ’’ جنرل سوہاگ ‘‘ نے منصب سنبھالنے کے بعد پہلی ہی تقریر میں پاکستان کی بابت شدید دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا۔ پھر 12 اگست کو مودی نے لداخ میں بھارتی فوجیوں سے خطاب کے دوران کہا کہ
پاک فوج روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکی ہے ‘‘
ظاہر ہے ایسی اشتعال انگیز زبان کا تصور بھی کسی مہذب ملک کے سربراہ سے نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے بعد 28 ستمبر کو مودی نے نیویارک میں اسرائیلی وزیر اعظم ’’ نیتن یاہو ‘‘ سے ملاقات کی ۔ باخبر ذرائع کے مطابق نیتن یاہو نے بھارتی وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ پاکستان کے خلاف ’’اسرائیلی ماڈل‘‘ اختیار کیا جائے ۔ علاوہ ازیں انڈیا کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ’’ اجیت ڈووال ‘‘ نے حالیہ دنوں میں کھل کر کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف’’ جارحانہ دفاع‘‘ کی پالیسی پر عمل کرے گا ۔ موصوف نے اس ضمن میں ’’ اوفینسیو ڈیفینس ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ۔
گذشتہ کچھ عرصے کے حالات و اقعات پر نگاہ ڈالیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے اجیت ڈووال کی جارحیت پر مبنی پالیسی پر باقاعدہ عمل شروع کر رکھا ہے جس کا اعتراف خود بعض بھارتی حلقے بھی کر رہے ہیں تبھی تو انڈین ایکسپریس کے سابق چیف ایڈیٹر ’’شیکھر گپتا ‘‘ نے اپنی تحریر ’’ نیشنل انٹرسٹ ، ڈس آرمنگ کشمیر ‘‘ میں کہا ہے کہ
’’ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ گذشتہ ایک عشرے میں انڈین آرمی کے پاس خارجہ اور
دفاعی پالیسیوں کے حوالے سے ویٹو کا اختیار آ چکا ہے ۔ اسی وجہ سے نہ صرف کشمیر میں
خاطر خواہ بہتری نہیں آ رہی بلکہ سیاچن کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکا ۔‘‘
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دوسری جانب وطنِ عزیز کی بعض شخصیات نے افواجِ پاکستان کو بدنام کرنے کا گویا بیڑا اٹھا رکھا ہے ۔
بہرکیف امید کی جانی چاہیے کہ امریکہ سمیت عالمی برادری اور خود پاکستانی میڈیا بھی اس ضمن میں تعمیری روش اپنائے گا تا کہ علاقائی اور عالمی امن کو تقویت مل سکے ۔
بائیس جنوری کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہین جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )