Skip to content Skip to footer

سفارتی استثناء،امریکہ اور بھارت کے دوہرے معیار اور ۔۔۔۔۔۔۔

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

بھارتی اخبارات کے مطابق امریکہ نے کہا ہے کہ نہ تو وہ خاتون بھارتی سفارت کار کے خلاف ویزا فراڈ کا کیس واپس لے گا اور نہ ہی بھارت سے معافی مانگے گا۔واضح رہے کہ 12.12.13 کو بھارت کی خاتون سفارت کا ر ’’دیویانی کھوبرگڑے‘‘ کو امریکہ میں گرفتار کیا گیا تو دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات خاصی کشیدگی اختیار کر گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ 17 دسمبر کو بھارتی حکومت نے دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے کے ارد گرد سے سیکورٹی کا حصار ہٹا لیا اور ایسے میں کوئی بھی خطرناک المیہ جنم لے سکتا تھا۔
مبصرین نے اس معاملے کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ 39 سالہ بھارتی خاتون سفارت کار کا تعلق صوبہ مہاراشٹر سے ہے اور ان کے والد IAS یعنی انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس سے تعلق رکھتے ہیں اور اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز رہ چکے ہیں اور موصوفہ خاتون سفارت کا ر ’’دیویانی کھوبرگڑے‘‘ نیو یارک میں واقع بھارتی قونصل خانے میں ڈپٹی قونصل جنرل کے عہدے پر فائز تھیں۔ انھوں نے بھارتی نژاد امریکی شہری’’آکاش سنگھ راٹھور‘‘ سے شادی کر رکھی ہے جو امریکہ کی ’’پنسلوانیا یونیورسٹی‘‘میں پروفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
نومبر 2012 میں ’’دیویانی کھوبرگڑے‘‘ بھارتی صوبہ کیرالہ سے تعلق رکھنے والی خاتون ’’سنگیتا رچرڈ‘‘ کو گھریلو ملازمہ کے طور پر اپنے ساتھ امریکہ لے کر گئیں۔ جانے سے پہلے دونوں فریقوں میں یہ معاہدہ طے پایا کہ 42 سالہ سنگیتا رچرڈ کو 25 ہزار بھارتی روپے ماہانہ تنخواہ اور 5 ہزار ماہانہ بطورِ اوور ٹائم ادا کیے جائیں گے البتہ اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا معاہدہ بھی تحریر کیا گیا جس کے مطابق ملازمہ کو 9.75 ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ (واضح رہے کہ یہ امریکی قانون کے مطابق ہے )جبکہ سنگیتا کو دیا جانے والا معاوضہ 3.13 ڈالر بنتا ہے۔سنگیتا کا شوہر ’’فلپ رچرڈ‘‘ دہلی میں واقع ’’موزمبیق‘‘ سفارت خانے میں بطورِ ڈرائیور کام کرتا تھا جبکہ سنگیتا کی ساس اور سسردہلی میں امریکی سفارت خانے میں ملازم ہیں ۔
21 جون 2013 کے بعد سنگیتا رچرڈ نیویارک میں دیوانی کے گھر سے غائب ہو گئی اور کسی دوسری جگہ ملازمت کرنے لگی۔ دیوانی کی شکایت پر دہلی کی ایک عدالت نے سنگیتا کی گرفتاری کے لئے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کر دیے اسی دوران امریکہ کے محکمے US. Federal Law Enforcement Authority نے سنگیتا کی شکایت پر دیوانی کے خلاف جعل سازی کامقدمہ درج کر لیا اور 19 نومبر کو سنگیتا کے شوہر فلپ کو ان کے دونوں بچوں سمیت امریکہ کا ویزہ جاری کر دیا گیا تا کہ وہ بھارتی سفارت کار کے خلاف چلنے والے مقدمے میں بطورِ گواہ پیش ہو سکے۔
12 دسمبر کو دیوانی کو نیویارک کے علاقے ’’مین ہٹن‘‘ سے گرفتار کر لیا گیا اور ان کو نہ صرف ہتھکڑی پہنائی گئی بلکہ جامہ تلاشی کے دوران پوشیدہ نسوانی اعضاء کی بھی تلاشی لی گئی ۔اور انھیں منشیات کی عادی ملزموں کے ساتھ حوالات میں بند کر دیا گیا۔
اس خاتون سفارت کار کی اس گرفتاری کے خلاف بھارتی کے طول و عرض میں بجا طور پر سخت احتجاج ہوا کیونکہ ’’ویانا کنونشن‘‘ کے مطابق سفارت کاروں کو دنیا بھر میں بہت سے معاملات میں سفارتی استثناء حاصل ہوتا ہے ۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں واقع سکول آف انٹر نیشنل سٹڈیز کے سکالر کمل چنائی اور علی گڑھ یونیورٹی کے آفتاب عالم نے بھارتی اخبار سہارا میں بجا طور پر لکھا ہے کہ ماضی قریب میں امریکہ اپنے سفارت کاروں کے استثناء کی بابت بالکل متضاد دعو ے کرتا رہا ہے جن کی بد ترین مثالیں ’’روس میں امریکی سفارت کار کے ہاتھوں شہری کا مارا جانااور لاہور پاکستان میں امریکی (نام نہاد) سفارت کار ’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ کے ہاتھوں دو بے گناہ شہریوں کا قتل ہے‘‘۔اس سے امریکی حکومت کے دوہرے معیارکا بخوبی پتہ چل جاتا ہے۔
غیر جانبدار مبصرین کی رائے میں خود بھارت بھی اس حوالے میں ضرورت سے زیادہ سخت رد عمل کا مرتکب ہو رہا ہے کیونکہ دہلی میں امریکی سفارت خانے سے سیکورٹی ہٹا لینے کا کوئی بھی جواز قابلِ قبول نہیں ہو سکتا ۔علاوہ ازیں سنگیتا رچرڈ بھی تو بھارتی شہری ہے،اس کے خلاف خود بھارتی سفارت کار کے ہاتھوں جو زیادتی ہوئی اس پر نہ تو بھارتی حکومت نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی ہندوستان کے نام نہاد میڈیا اور سول سوسائٹی کے ارکان نے کوئی آواز اٹھائی۔
البتہ نیویارک میں 29 دسمبر کو انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھارتی قونصل خانے کے سامنے سنگیتا کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ اس کے علاوہ امریکہ میں مقیم سکھ انسانی حقوق کے ادارے Sikhs For Justice نے اعلان کیا ہے کہ وہ 13 جنوری 2014کو نیویارک میں بھارتی حکومت کے خلاف بہت بڑا مظاہرہ کرے گا جس میں بھارتی حکومتی سرپرستی میں وہاں کی اقلیتوں ،سکھوں ،مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا بھر کے سامنے اجاگر کر کے دہلی سرکار کے تضادات پر مبنی چہرے کو بے نقاب کیا جائے گا ۔یوں ’’دیویانی کھوبرگڑے‘‘ اور سنگیتا رچرڈ کے معاملے نے پوری عالمی برادری کے سامنے امریکہ اور بھارت کے دوہرے معیاروں اور ریاکاری پر مبنی پالیسیوں کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔

2 جنوری 2014 کو روزنامہ صدائے چنار میں شائع ہوا۔(مندرجہ بالا  تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)۔

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements