Newspaper Article 17/08/2015
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سمجھوتہ ایکسپریس دہشتگردی کے مرکزی ملزم کی ضمانت پر عالمی برادری کی خاموشی پر افسوس ظاہر کیا ہے ۔ دوسری جانب ممکنہ طور پر ایک ہفتے بعد دہلی میں پاک بھارت قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات متوقع ہے۔ اس پس منظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ بھارتی قول و فعل کے تضاد کا یہ عالم ہے کہ چند روز قبل گیارہ اگست کو ہندوستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور ’’ ہری بھائی چوہدری ‘‘ نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں اپنے تحریری جواب میں کہا کہ سمجھوتہ ایکسپریس مقدمے کے مرکزی ملزم ’’ سوامی آسیمانند ‘‘ کو ملی ضمانت کے خلاف سرکار کوئی اپیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ۔ واضح رہے کہ کہ اٹھارہ فروری 2007 کو بھارتی صوبے ہریانہ کے مقام پانی پت کے نزدیک ریلوے اسٹیشن ’’ دیوانہ ‘‘ میں دہلی سے لاہور آ رہی سمجھوتہ ایکسپریس میں چار بم دھماکے ہوئے تھے جن میں بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 68 نہتے اور معصوم مسافر جاں بحق ہوئے تھے جبکہ ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوئے تھے ۔ ہندوستان کی تفتیشی ایجنسی ’’ این آئی اے ‘‘ نے طویل تحقیقات کے بعد سوامی آسیمانند نامی مرکزی ملزم کو اکتوبر 2010 میں گرفتار کیا گیا جس نے 18 دسمبر 2010 کو تعزیراتِ ہند کی دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ ’’ دیپک دیواس ‘‘ کے سامنے دہلی کی تیس ہزاری کورٹ میں اپنے اعترافی بیان میں اقبالِ جرم کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے سمجھوتہ ایکسپریس کو تباہ کرنے کے لئے یہ دہشتگردی کی واردات انجام دی تھی ۔ یہ اعترافی بیان 42 صفحات پر ہندی زبان میں مشتمل ہے ۔ ملزم سوامی کے علاوہ اس کے ساتھی ملزمان ’’ دوندر گپتاِ ‘‘، ’’ مکیش شرما ‘‘ ، ’’ چندر شیکھر ، ہرشد سولنکی بھی اس میں شریک ملزمات کے طور پر نامزد کیے گئے تھے ۔ علاوہ ازیں بھارتی فوج کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل ’’ شری کانت پروہت‘‘ ، میجر اپادھیا ، سادھوی پرگیا ٹھاکر اور ’’ آر ایس ایس ‘‘کے رہنما ’’ اندریش کمار ‘‘ بھی اس جرم میں شامل تھے ۔ علاوہ ازیں ’’ آر ایس ایس ‘‘کے موجودہ چیف ’’ موہن بھاگوت ‘‘ سے بھی اس جرم کی منظوری لی گئی تھی ۔
اس اعترافی بیان کا پورا متن بھارت کے تہلکہ نیوز میگزین نے ’’ ان دی ورڈز آف زیلیٹ ‘‘ کے عنوان سے جنوری 2011 کے اپنے شمارے میں کور سٹوری کے طور پر شائع کیا ۔ اس بیان میں ’’ آر ایس ایس ‘‘کے رہنماؤں ’’ سنیل جوشی ‘‘ ،’’ سندیپ ڈانگے ‘‘ اور ’’ رام جی کلسرا ‘‘ کے نام بھی شامل تھے ۔ آسیمانند نے اپنے بیان میں بتایا کہ ’’ میں نے اپنے سب ساتھیوں کو بتایا کہ بم کا جواب بم سے دینا چاہیے اسی لئے ہم نے مالیگاؤں میں بھی بم دھماکہ کیا کیونکہ وہاں کی اسی فیصد آبادی مسلمان ہے ۔ اجمیر درگاہ پر دہشتگردی کا محرک اس نے یہ بتایا کہ بہت سے ہندو بھی اجمیر درگاہ پر جاتے ہیں ، اس طرح کے بم دھماکوں کے بعد ہو سکتا ہے ہندو وہاں جانا بند کر دیں ‘‘ ۔ اس کے بقول مکہ مسجد حید آباد کو دہشتگردی کے لئے اس وجہ سے چنا کیا کیونکہ تقسیمِ ہند کے وقت حیدر آباد کا نواب پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتا تھا ۔
سوامی آسیمانند کا اصل نام ’’ جتن چٹر جی ‘‘ ہے جس کا آبائی تعلق مغربی بنگال کے ضلع ’’ ہگلی ‘‘ سے ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باٹنی کے مضمون میں پوسٹ گریجویٹ ہے ۔ 1977 سے وہ ’’ آر ایس ایس ‘‘کا ہمہ وقتی پرچارک اور گجرات کے ضلع ’’ ڈانگ ‘‘ میں واقع ’’ ون واشی کلیان آشرم ‘‘ کا انچارج تھا ۔ اس کے بقول 2006 میں اس نے اس سلسلہ میں پرگیہ ٹھاکر اور کرنل پروہت وغیرہ سے پہلی میٹنگ کی جس میں دہشتگردی کے ان واقعات کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ یاد رہے کہ 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکوں میں سات لوگ جبکہ اجمیر درگاہ شیرف میں تین افراد اور سمجھوتہ ایکسپریس میں 68 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب ، ہریانہ ہائی کورٹ نے اس کی ضمات 28 اگست 2014 کو منظور کی تھی مگر دوسرے مقدمات میں ملوث ہونے کی وجہ سے عملاً اس کی رہائی عمل میں نہ آئی البتہ جون 2015 میں اس کو دس روز کے لئے پیرول پر رہا کیا گیا کیونکہ بقول اس کے اس کی پچاسی سالہ ماں خاصی بیمار تھی اور وہ اس کی تیمار داری کرنا چاہتا تھا ۔
26 جون 2015 کو انڈین ایکسپریس میں خاتون سرکاری وکیل ’’ روہنی سیلان ‘‘ کا انٹر ویو شائع ہوا جس میں موصوفہ نے مودی سرکار کی جانب سے ہندو دہشتگردوں کی سرپرستی کو پوری طرح بے نقاب کیا ہے ۔
بہر کیف مندرجہ بالا تحریر کا مقصد محض یہ ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی مجوزہ ملاقات ( اگر ہوتی ہے ) میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وطنِ عزیز کی جانب سے تمام متعلقہ حلقے اپنا ہوم ورک مکمل کر کے خاطر خواہ ڈھنگ سے اس میں حصہ لیں اور وہاں معذرت خواہانہ رویہ
اپنانے کی بجائے سمجھوتہ ایکسپریس اور دوسرے معاملات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت دے کر کے فریق ثانی سے جواب طلب کیا جائے۔
سترہ اگست کو نوائے وقت میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )