Newspaper Article 02/11/2014
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات کی مخالفت میں مہم چلانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے 40 سے زائد کشمیری قائدین کو گرفتار کر لیا ہے ۔ حراست میں لیے جانے والوں میں حریت رہنما یاسین ملک ، اور شبیر شاہ بھی شامل ہیں ۔ واضح رہے ، بھارتی حکومت اس ریاستی الیکشن کے بعد بھارتی آئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
دوسری جانب یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 6 نومبر کو کشمیر کے طول و عرض میں یوم شہدائے جموں منایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس روز 1947 میں بے شمار کشمیر ی ڈوگر ہ راجہ ہری سنگھ کی سفاکی کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے تھے ۔ چند روز پہلے 31 اکتوبر کو دنیا بھر کے سکھوں نے بھی اپنی نسل کشی کی 30 ویں برسی پر بھارتی بربریت کے خلاف سخت احتجاج کیا ۔ مبصرین نے جموں میں ہزاروں بے قصور کشمیریوں کی شہادت ، سکھوں کے قتلِ عام اور دیگر ایسے واقعات کو محض اتفاق قرار دینے سے انکار کرتے کہا ہے کہ ان تمام سانحوں سے پتا چلتا ہے کہ بھارت کے بالا دست طبقات اپنی تمام مذہبی اقلیتوں کو ریاستی دہشتگردی کے ذریعے کچلنے کی قابل مذمت ذہنیت کے حامل ہیں۔
اس سے پہلے 26 دسمبر کو کشمیریوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف لندن میں جو عظیم الشان جلسے اور جلوس کا اہتمام کیا اور دہلی سرکار کے جابرانہ قبضے کے خلاف برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ تک تاریخی مارچ کیا ، اس عمل نے پھر عالمی برادری کو اس مسئلے کی اہمیت اور سنگینی کی طرف متوجہ کر دیا ہے ۔ غالباً سبھی کو احساس ہوا ہے کہ اس تنازعہ کی موجودگی اور اس کو حل کرنے میں بھارت کی عدم دلچسپی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔اس کے علاوہ بھارت اپنے زیر تسلط کشمیر میں اپنی قابض فوج کے ذریعے جس وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہو رہا ہے ، وہ ظلم کی ایک الگ داستان ہے ۔ اور اسی تنازعے کے باعث جنوبی ایشائی خطہ مسلسل عدم استحکام سے دوچار ہے ۔
اسی پس منظر میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے ٹھیک 67 سال بعد کشمیری لندن میں جمع ہوئے اور انھوں نے اپنے حق خود ارادیت کی حمایت میں مارچ کیا ۔ اس موقع پر حریت کانفرنس کے رہنماؤں اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ دنیا بھر سے انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور برطانوی اور یورپی اراکین پارلیمنٹ نے شرکت کی ۔ اس موقع پر کشمیری رہنماؤں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس عظیم الشان مارچ میں کشمیریوں کی بڑے پیمانے پر شرکت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھارت کے غاصبانہ قبضے کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے ۔ اس موقع پر عالمی برادری سے مقبوضہ ریاست میں بھارتی مظالم بند کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے اور خاص طور پر برطانوی حکومت کو یاد دلایا گیا کہ تنازعہ کشمیر تقسیم ہند کے کامکمل ایجنڈے کا اہم جزو ہے جسے انگریز ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔ لہذا برطانوی حکومت کا فرض ہے کہ کشمیریوں کو بھارت کے غیر قانونی اور ناجائز قبضے سے نجات دلا کر آزادی دلائے اور مقبوضہ ریاست میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کرایا جائے تا کہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں ۔
مارچ کے شرکا کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون مداخلت کر کے مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرائیں اور بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم بند کرے اور پاکستان کے خلاف ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر فائرنگ اور گولہ باری فوری طور پر بند کی جائے کیونکہ اس بھارتی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں شہری جاں بحق ہو رہے ہیں ۔
مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ مودی سرکار نے اس مارچ کو رکوانے کی حتی الامکان کوشش کی اور اسی مقصد کی خاطر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج خصوصی طور پر لندن گئیں اور نائب وزیر خارجہ ’’نک کلیگ‘‘ سے ملاقات کر کے کہا کہ اس مارچ پر پابندی لگائی جائے مگر برطانوی حکومت نے دہلی سرکار کی یہ بات نہ مانی اور یوں یہ تاریخی مارچ ممکن ہو سکا البتہ غیر جانبدار مبصرین نے کہا ہے کہ اگر اس کے منتظمین زیادہ بہتر ڈھنگ سے ہوم ورک کرتے تو یہ مارچ اس سے کہیں زیادہ موثر ہو سکتا تھا اور یوں مارچ کے دوران بلاول بھٹو کے خلاف جو نا خوشگوار صورتحال پیدا ہوئی غالباً اس سے بچا جا سکتا تھا ۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کے جن کارکنوں نے ہلڑ باری کی ان کی منفی روش کی ہر جانب سے مذمت کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ بہتر یہ ہو گا آئندہ جب بھی اس قسم کے مارچ کا اہتمام کیا جائے تو اس میں پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ وفود کو مدعو کیا جائے ۔ علاوہ ازیں وہاں موجود سکھ برادری کی شمولیت کو بھی زیادہ فعال ڈھنگ سے یقینی بنایا جانا چاہیے ۔ اس کے ساتھ میڈیا کے ذریعے پاکستان ، کشمیر اور دنیا بھر کے تمام انسان دوست حلقوں میں بروقت اس کی مکمل تشہیر کا انتظام کیا جائے اور ان سبھی سے اپیل کی جائے کہ وہ یورپ اور امریکہ میں موجود اپنے عزیز و اقارب اور سبھی دوست احباب سے درخواست کریں وہ شامل ہو کر کشمیری عوام کی آواز کو زیادہ موثر بنائیں ۔اس بات کا بھی دھیان رکھا جانا چاہیے کہ لفظ ’’ ملین ‘‘ کا غیر ضروری استعمال نہ کیا جائے کیونکہ یورپ یا امریکہ میں لاکھوں افراد کا اکٹھا ہونا خاصا مشکل ہوتا ہے ۔ ستمبر 28 کو جب مودی نے نیویارک کے میڈیلین سکوائر میں جلسہ کیا تو اس میں بھی تمام تر کوششوں کے باوجود 16 ہزار سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہو پائے تھے ۔ امید ہے کہ آئندہ کا کشمیر مارچ اس سے بھی زیادہ موثر اور پر امن ہو گا ۔
دو نومبر کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )