Newspaper Article 17/06/2016
تحریر : ڈیڈیئر شودت
پہلے ہم نے اس امر کا جائزہ لیا کہ ’’ ٹرمپ ‘‘ کا ممکنہ طور پر صدر منتخب ہونا بظاہر افغان تنازعہ کے لئے ایک بری پیش رفت ہو گی ۔ مگر ’’ ہیلری کلنٹن ‘‘ کیا بطور صدر امریکہ واقعی بہتر ثابت ہوں گی ۔ یہ بھی اپنے آپ میں بڑا سوال ہے ؟ ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سابقہ خاتون اول ہونے اور امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے موصوفہ خطے کے امور کی بابت ایک طویل تجربے اور مشاہدے کی حامل ہیں ۔ اگرچہ محض اس بنا پر انھیں ان معاملات کا ماہر قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ظاہر ہے کہ تمام بڑی عالمی قوتوں کی روش اور طرز عمل میں نیشنل ازم اور ’’ امپیئرلسٹ ‘‘ سوچ حاوی ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ متعلقہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ دانشوروں میں بھی بالا دستی کی یہ سوچ سرایت کر جاتی ہے اور یقیناًہیلری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے والے ’’ نیو کنزر ویٹو ‘‘ حلقوں کی اکثریت ٹرمپ کی بہ نسبت ہیلری کی حامی ہے ۔ لہذا ہیلری کی ممکنہ خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں امریکی طاقت کو قوت کے زور پر منوانا شامل ہو گا ۔ یوں بھی وہ ماضی میں زیادہ تر سخت گیر پالیسی کی حامی رہی ہیں ۔
مثلاً 1999 میں انھوں نے ’’ سربیا ‘‘ پر بمباری کی حمایت کی ۔ 2003 میں موصوفہ نے عراق پر حملے کو صحیح ٹھہرایا اور عراق میں امریکی افواج موجود رکھنے کی حمایت کی ۔ وہ شام پر بمباری اور شامی باغیوں کو ہتھیار مہیا کرنے کی بھی وکالت کرتی رہیں ۔ انھوں نے لیبیا میں قذافی کی حکومت کی تبدیلی کی بھی واضح حمایت کی جس کے نتیجے میں موجودہ انتشار پیدا ہوا ۔ علاوہ ازیں وہ کھلے عام اوبامہ اور کیری کی ان پالیسیوں کے جاری رہنے کی مخالفت کرتی رہیں جن کا مقصد بقول ان کے ایران کو خوش کرنا تھا ۔ وہ فوجی قوت کے استعمال کو سفارت کاری کا ہی ایک حربہ سمجھتے ہوئے اسے جائز قرار دیتی ہیں ۔ ان کی پالیسیوں کے ساتھ جزوی طور پر یہ مسئلہ در پیش رہا کہ ان کے نتیجے میں بالواسطہ طور پر القاعدہ اور داعش کو فروغ ملا ۔ افغان مسئلے کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ اس روایتی امریکی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف طالبان پیدا ہوئے بلکہ اپنا وجود باقی رکھنے اور دوبارہ حیات نو حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے ۔
1980 کے عشرے کے اواخر میں امریکہ نے افغانستان اور اپنے اتحادی پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا کیونکہ تب اسے لگا کہ ان معاملات کی وجہ سے عالمی قوتوں میں محاذ آرائی اس کے لئے مفید نہیں ۔ امریکہ نے ایک ایسے ملک یعنی افغانستان کو اکیلا چھوڑ دیا جو اس کی پالیسیوں کے نتیجے میں کھنڈرات میں تبدیل ہو کر رہا گیا تھا اور دوسرے اتحادی ملک پاکستان کو بھی تنہا چھوڑ دیا جو اس کی پالیسیوں کی حمایت کے نتیجے میں بے شمار مشکلات اور مسائل کا سامنا کر رہا تھا ۔ طالبان کا وجود میں آنا در حقیقت اسی امریکی پالیسی کے نتیجہ تھا ۔ جو مقامی سلامتی کے حوالے سے پیدا ہوئے ۔ اسی طرح 2002 میں ہیلری کی حمایت سے واشنگٹن نے افغانستان کے میدان جنگ سے کسی حد تک کنارہ کشی کر لی تا کہ عراق پر حملے کی زیادہ موثر ڈھنگ سے تیار کی جا سکے ۔ 2001 میں طالبان امریکی فوج کے حملے کے بعد بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے اور بعد میں موجودہ سطح کی قوت اختیار کر گئے ۔
مگر واشنگٹن کے اہم تجزیہ نگاروں اور ہیلری کو ان پالیسیوں کے لئے امریکی سوالوں کا موثر ڈھنگ سے سامنا نہ کرنا پڑا ۔ جبکہ موصوفہ نے امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے امریکی غلطیوں کے لئے پاکستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ اسی وجہ سے اسلام آباد میں موصوفہ کی شناخت ہی ’’ ڈو مور ‘‘ کا مطالبہ کرنے والی شخصیت کے طور پر بن کر رہ گئی تھی ۔ پاکستانی بجا طور پر مطالبے کو نا جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے ملک کو دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا اور اب بھی یہ یقینی نہیں کہ صدر ہیلری کے تحت امریکی انتظامیہ افغانستان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں سنجیدہ دلچسپی لے گی لیکن اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو خدشہ ہے کہ وہ اپنی مداخلت کرنے کی روش کی وجہ سے شاید مثبت نتائج نہ لے پائیں ۔ اس بار افغانستان کو بالواسطہ یا براہ راست مزید فوجی امداد بڑھائی جا سکتی ہے لہذا بر سر اقتدار آنے کے بعد ہیلری کو اس بڑے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے کہ وہ خطے کے موثر ملکوں کو کس طرح یقین دلائیں کہ وہ ان کی حکومت پر اعتماد کر سکتے ہیں ۔
یہ امر بھی ہے کہ وہ خطے میں بڑھتے چینی رسوخ کی مخالف ہیں اس لئے خدشہ ہے کہ ان کی حکومت بھی اوبامہ کی بھارت نوازی کی ان پالیسیوں کو جاری رکھی گے جن کا آغاز بش دور میں ہوا اور جن کا مقصد چین کی مخالفت کے لئے بھارت کو تیار کرنا ہے ۔ ہیلری حکومت کو پاکستان کے ساتھ اعتماد کی بحالی کے لئے سخت محنت کرنا ہو گی کیونکہ بر صغیر میں امریکی وزیر خارجہ کے طور پر ان کا ماضی بھارت نوازی کی واضح شناخت کا حامل رہا ہے ۔ ہر کسی کو یاد ہے کہ وہ پاکستان کے اتحادی کے طور پر بھی مسلسل اور منظم ڈھنگ سے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں اور امریکی نا کامیوں کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہیں ۔
حرف آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہیلری کو صدر امریکہ کے روپ میں بیجنگ اور اسلام آباد میں قدرے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔ اس متوقع صورتحال کو بدلنے کے لئے انھیں اپنے طرز عمل میں واضح تبدیلی لانی ہو گی کیونکہ پاکستان اور چین کی مدد کے بغیر افغانستان میں موثر استحکام کے خواب کی عملی تعبیر پانا تقریباً نا ممکن ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ ہیلری کے تحت افغانستان یا سینٹرل ایشیاء میں کسی بھی قسم کی فوجی مہم جوئی کو ماسکو میں بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا ۔ حقیقت میں اس خطے کے لئے بہتر یہ ہو گا کہ ہیلری جان کیری کی پیروی کرتے ہوئے ’’ تہران ‘‘ ، ’’ کابل ‘‘ اور ’’ اسلام آباد ‘‘ کو قریب لانے کی کوشش کریں یا پھر کابل سے کہیں کہ جس طرح ان کی وزارت خارجہ کے دور میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ سمارٹ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے عسکری تعلقات رکھے اس طرح سے طالبان پر دباؤ بڑھا کر علاقے کے ملکوں کی مدد سے کابل انتظامیہ اور طالبان کے مابین قابل عمل پر امن حل تلاش کیا جا سکتا ہے ۔
تحریر : ڈیڈیئر شودت : فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں ۔ وہ افغانستان ، پاکستان ، ایران اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’ سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز ‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور ‘‘ ، ’’ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز ‘‘ ، ’’ فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز ‘‘ اور ’’ یالے یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’ اپری ‘‘ ( اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) سے ’’ نان ریزیڈنٹ سکالر ‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں ۔ ( ترجمہ : اصغر علی شاد ) ‘‘۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سابقہ خاتون اول ہونے اور امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے موصوفہ خطے کے امور کی بابت ایک طویل تجربے اور مشاہدے کی حامل ہیں ۔ اگرچہ محض اس بنا پر انھیں ان معاملات کا ماہر قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ظاہر ہے کہ تمام بڑی عالمی قوتوں کی روش اور طرز عمل میں نیشنل ازم اور ’’ امپیئرلسٹ ‘‘ سوچ حاوی ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ متعلقہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ دانشوروں میں بھی بالا دستی کی یہ سوچ سرایت کر جاتی ہے اور یقیناًہیلری بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے والے ’’ نیو کنزر ویٹو ‘‘ حلقوں کی اکثریت ٹرمپ کی بہ نسبت ہیلری کی حامی ہے ۔ لہذا ہیلری کی ممکنہ خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں امریکی طاقت کو قوت کے زور پر منوانا شامل ہو گا ۔ یوں بھی وہ ماضی میں زیادہ تر سخت گیر پالیسی کی حامی رہی ہیں ۔
مثلاً 1999 میں انھوں نے ’’ سربیا ‘‘ پر بمباری کی حمایت کی ۔ 2003 میں موصوفہ نے عراق پر حملے کو صحیح ٹھہرایا اور عراق میں امریکی افواج موجود رکھنے کی حمایت کی ۔ وہ شام پر بمباری اور شامی باغیوں کو ہتھیار مہیا کرنے کی بھی وکالت کرتی رہیں ۔ انھوں نے لیبیا میں قذافی کی حکومت کی تبدیلی کی بھی واضح حمایت کی جس کے نتیجے میں موجودہ انتشار پیدا ہوا ۔ علاوہ ازیں وہ کھلے عام اوبامہ اور کیری کی ان پالیسیوں کے جاری رہنے کی مخالفت کرتی رہیں جن کا مقصد بقول ان کے ایران کو خوش کرنا تھا ۔ وہ فوجی قوت کے استعمال کو سفارت کاری کا ہی ایک حربہ سمجھتے ہوئے اسے جائز قرار دیتی ہیں ۔ ان کی پالیسیوں کے ساتھ جزوی طور پر یہ مسئلہ در پیش رہا کہ ان کے نتیجے میں بالواسطہ طور پر القاعدہ اور داعش کو فروغ ملا ۔ افغان مسئلے کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ اس روایتی امریکی پالیسی کی وجہ سے نہ صرف طالبان پیدا ہوئے بلکہ اپنا وجود باقی رکھنے اور دوبارہ حیات نو حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے ۔
1980 کے عشرے کے اواخر میں امریکہ نے افغانستان اور اپنے اتحادی پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا کیونکہ تب اسے لگا کہ ان معاملات کی وجہ سے عالمی قوتوں میں محاذ آرائی اس کے لئے مفید نہیں ۔ امریکہ نے ایک ایسے ملک یعنی افغانستان کو اکیلا چھوڑ دیا جو اس کی پالیسیوں کے نتیجے میں کھنڈرات میں تبدیل ہو کر رہا گیا تھا اور دوسرے اتحادی ملک پاکستان کو بھی تنہا چھوڑ دیا جو اس کی پالیسیوں کی حمایت کے نتیجے میں بے شمار مشکلات اور مسائل کا سامنا کر رہا تھا ۔ طالبان کا وجود میں آنا در حقیقت اسی امریکی پالیسی کے نتیجہ تھا ۔ جو مقامی سلامتی کے حوالے سے پیدا ہوئے ۔ اسی طرح 2002 میں ہیلری کی حمایت سے واشنگٹن نے افغانستان کے میدان جنگ سے کسی حد تک کنارہ کشی کر لی تا کہ عراق پر حملے کی زیادہ موثر ڈھنگ سے تیار کی جا سکے ۔ 2001 میں طالبان امریکی فوج کے حملے کے بعد بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہے اور بعد میں موجودہ سطح کی قوت اختیار کر گئے ۔
مگر واشنگٹن کے اہم تجزیہ نگاروں اور ہیلری کو ان پالیسیوں کے لئے امریکی سوالوں کا موثر ڈھنگ سے سامنا نہ کرنا پڑا ۔ جبکہ موصوفہ نے امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے امریکی غلطیوں کے لئے پاکستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ اسی وجہ سے اسلام آباد میں موصوفہ کی شناخت ہی ’’ ڈو مور ‘‘ کا مطالبہ کرنے والی شخصیت کے طور پر بن کر رہ گئی تھی ۔ پاکستانی بجا طور پر مطالبے کو نا جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے ملک کو دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا اور اب بھی یہ یقینی نہیں کہ صدر ہیلری کے تحت امریکی انتظامیہ افغانستان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں سنجیدہ دلچسپی لے گی لیکن اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو خدشہ ہے کہ وہ اپنی مداخلت کرنے کی روش کی وجہ سے شاید مثبت نتائج نہ لے پائیں ۔ اس بار افغانستان کو بالواسطہ یا براہ راست مزید فوجی امداد بڑھائی جا سکتی ہے لہذا بر سر اقتدار آنے کے بعد ہیلری کو اس بڑے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے کہ وہ خطے کے موثر ملکوں کو کس طرح یقین دلائیں کہ وہ ان کی حکومت پر اعتماد کر سکتے ہیں ۔
یہ امر بھی ہے کہ وہ خطے میں بڑھتے چینی رسوخ کی مخالف ہیں اس لئے خدشہ ہے کہ ان کی حکومت بھی اوبامہ کی بھارت نوازی کی ان پالیسیوں کو جاری رکھی گے جن کا آغاز بش دور میں ہوا اور جن کا مقصد چین کی مخالفت کے لئے بھارت کو تیار کرنا ہے ۔ ہیلری حکومت کو پاکستان کے ساتھ اعتماد کی بحالی کے لئے سخت محنت کرنا ہو گی کیونکہ بر صغیر میں امریکی وزیر خارجہ کے طور پر ان کا ماضی بھارت نوازی کی واضح شناخت کا حامل رہا ہے ۔ ہر کسی کو یاد ہے کہ وہ پاکستان کے اتحادی کے طور پر بھی مسلسل اور منظم ڈھنگ سے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں اور امریکی نا کامیوں کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہیں ۔
حرف آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہیلری کو صدر امریکہ کے روپ میں بیجنگ اور اسلام آباد میں قدرے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔ اس متوقع صورتحال کو بدلنے کے لئے انھیں اپنے طرز عمل میں واضح تبدیلی لانی ہو گی کیونکہ پاکستان اور چین کی مدد کے بغیر افغانستان میں موثر استحکام کے خواب کی عملی تعبیر پانا تقریباً نا ممکن ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ ہیلری کے تحت افغانستان یا سینٹرل ایشیاء میں کسی بھی قسم کی فوجی مہم جوئی کو ماسکو میں بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا ۔ حقیقت میں اس خطے کے لئے بہتر یہ ہو گا کہ ہیلری جان کیری کی پیروی کرتے ہوئے ’’ تہران ‘‘ ، ’’ کابل ‘‘ اور ’’ اسلام آباد ‘‘ کو قریب لانے کی کوشش کریں یا پھر کابل سے کہیں کہ جس طرح ان کی وزارت خارجہ کے دور میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ سمارٹ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے عسکری تعلقات رکھے اس طرح سے طالبان پر دباؤ بڑھا کر علاقے کے ملکوں کی مدد سے کابل انتظامیہ اور طالبان کے مابین قابل عمل پر امن حل تلاش کیا جا سکتا ہے ۔
تحریر : ڈیڈیئر شودت : فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں ۔ وہ افغانستان ، پاکستان ، ایران اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’ سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز ‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور ‘‘ ، ’’ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز ‘‘ ، ’’ فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز ‘‘ اور ’’ یالے یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’ اپری ‘‘ ( اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) سے ’’ نان ریزیڈنٹ سکالر ‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں ۔ ( ترجمہ : اصغر علی شاد ) ‘‘۔
سترہ جون کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )