Newspaper Article 11/08/2017
اب اس بات سے بھلا کون آگاہ نہیں کہ یوں تو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پا مالیاں کسی نہ کسی سطح پر عرصہ دراز سے جاری ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہو گا کہ مکمل طور سے دنیا کا کوئی خطہ اس امر کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہاں پر سو فیصد امن و امان قائم ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا وہاں نشان تک نہیں ۔ مگر اس تلخ سچائی سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مقبوضہ کشمیر دنیا کا وہ بد قسمت ترین خطہ ہے جہاں ستر برس کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود قابض بھارتی افواج تسلسل کے ساتھ غیر انسانی مظالم اس ڈھنگ سے ڈھا رہی ہیں جن کا تصور بھی کسی نارمل انسانی معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ امر بھی پوری طرح اظہر من الشمس ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد ’’ لیگ آف نیشنز ‘‘ کے نام سے ایک عالمی ادارہ وجود میں آیا تھا جس کی ذمہ داری یہ قرار پائی تھی کہ جنگ و جدل کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم کیا جائے گا مگر اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے کہ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے محض اکیس برس بعد دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی جو 1945 کے اوائل تک جاری رہی اور یوں عالمی امن قائم رکھنے کی دعویدار ’’ لیگ آف نیشنز ‘‘ کا نام و نشان تک ختم ہو گیا ۔
تو اسی ادارے کے کھنڈرات پر گویا ایک نئی عالمی تنظیم ’’ اقوام متحدہ ‘ ‘ کی تعمیر ہوئی جس کا ذمہ یہ قرار پایا کہ اب یہ ادارہ عالمی امن کے قیام کی ضمانت بنے گا مگر اب عام آدمی اپنے بیتے ماہ و سال پر نظر ڈالتا ہے کہ عالمی امن کے سلسلے میں کہاں تک پیش رفت ہوئی تو اسے اس بابت سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ گزرے ستر سے زائد برسوں میں تنازعہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب ایک رتی برابر پیش رفت نہیں ہوئی اور امنِ عالم کے ٹھیکے داروں نے کسی بھی مسئلے خصوصاً کشمیر کے حوالے سے جتنے بھی دعوے کیے وہ تاحال ’’ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سنا افسانہ تھا ‘‘ کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مسئلہ کشمیر حل طلب تنازعات میں سرِ فہرست ہے اور اقوامِ متحدہ نے 1948 اور 1949 کی اپنی قرار دادوں کے ذریعے بھارت سمیت ساری دنیا سے اس بات کا عہد کیا تھا کہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کے مسلمہ اصولوں کے مطابق حل کیا جائے گا ۔
اپنے قیام کے ابتدائی برسوں میں دہلی کے حکمران اپنے ان وعدوں پر کسی حد تک قائم بھی رہے مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ سب کچھ قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ۔ حالا نکہ پاکستان اور بھارت کے مابین اسی تنازعے کی وجہ سے تین بار کھلی جنگ کی نوبت آ چکی ہے ۔ اس معاملے کا یہ پہلو اور بھی المناک ہے کہ کشمیر کی جدو جہدِ آزادی میں ایک لاکھ سے زائد معصوم کشمیری بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ صرف بیتے ایک سال میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں سے پیلٹ گنوں کے ذریعے سفاک بھارتی فوجیوں نے بینائی چھین لی ۔ گذشتہ روز بھی ’’ عمر فیاض ‘‘ نامی نو عمر لڑکے کی دونوں آنکھیں پلوامہ میں بھارتی فوجی کی جانب سے پیلٹ گنوں کے استعمال سے چھین لی گئیں ۔
اگرچہ گزرے برسوں میں ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کو آزادی ملی ۔ علاوہ ازیں دیوارِ برلن ختم ہوئی ۔ یورپ اور ایشیاء میں کئی نئے ملک وجود میں آئے مگر نہتے کشمیریوں کی متلاشی نگاہیں ہنوذ تنازعہ کشمیر کے حل کی راہیں تک رہی ہیں۔
قابض بھارتی فوج نے معصوم کشمیریوں کے خلاف درندگی اور سفاکی کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے ، اس کا تصور بھی کوئی مہذب معاشرہ نہیں کر سکتا مگر آفرین ہے یورپ اور امریکہ کے ان حلقوں پر جو خود کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار قرار دیتے نہیں تھکتے ۔گویا
آنسو بھی وہی ، درد کے سائے بھی وہی ہیں
ہم گردشِ دوراں کے ستائے بھی ہیں
اوراقِ دل و جاں پہ جنھیں ہم نے لکھا ہے
نغماتِ عَلم ہم نے سنائے بھی وہی ہیں ۔
روزنامہ نوائے وقت میں چار اگست کو شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )