Newspaper Article 14/09/2015
اس امر میں تو غالباً کوئی شبہ نہیں کہ دورِ حاضر میں قوموں کی برادری میں اُسی ملک کو زیادہ عزت اور مقام حاصل ہوتا ہے جس کی معیشت بحیثیت مجموعی زیادہ بہتر ہے اور وہ انفرادی یا اجتماعی طور پر دوسروں کا محتاج نہیں ۔ ویسے تو معلوم انسانی تاریخ کی ہمیشہ سے یہ سب سے بڑی سچائی رہی ہے کہ معاشی طور پر کمزور فرد یا قوم کو کسی بھی حوالے سے خاطر خواہ اہمیت نہیں مل پاتی ۔ یہاں تک کے خود اس کے اپنے اندر بھی اعتماد کی وہ سطح پیدا نہیں ہو پاتی جو ہونی چاہیے بلکہ افلاس کی کیفیت سے تو رسول پاک ؐ نے بھی پناہ مانگی ہے اور یہ حقیقت بھی کسی سے پوشید ہ نہیں کہ پاکستان اقتصادی لحاظ سے اتنا مستحکم نہیں کہ اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کیا جا سکے ۔ اس امر کی دیگر بہت سی وجوہات کے علاوہ معیشت کی خستہ حالی اور ہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پسماندگی بھی ہے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ پچھلے سو ڈیڑھ سو سال میں دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے حیرت انگیز تک ترقی کی بلکہ بیسویں صدی عیسوی کو تو ایجادات کی صدی کہا جاتا ہے ۔ اس لئے صرف انہی قوموں نے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں جنہوں نے اپنی معاشیا ت کو جدید فنون کے تحت ڈھالا ہے ۔
اسی پس منظر میں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام دارالحکومت میں نو اور دس ستمبر کو ’’ بلڈنگ نالج بیسڈ اکانومی ‘‘ عنوان کے تحت قومی کانفرنس منعقد ہوئی ۔ جس میں ملک کے نامور ماہرین اقتصادیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ملکی اقتصادیات کو جدید علوم کے ذریعے ترقی دینے کے لئے مختلف تجاویز پیش کیں ۔ اس کانفرنس میں ملک کی نامور یونیورسٹیوں مثلاً قائداعظم یونیورسٹی اسلام ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس ( لمز ) اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلز نے بھی شرکت کی ۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے منصوبہ بندی کے مرکزی وزیر ’’ پروفیسر احسن اقبال ‘‘ نے خطاب کرتے ہوئے کہا آج سائنسی علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے دانشوروں کی تعداد تقریباً ساڑھے سات ہزار ہے ۔ اس کے باوجود اقتصادی صورتحال تاحال وہ مقام حاصل نہیں کر پائی جس کا خواب اس کے قیام کے وقت دیکھا گیا تھا ۔اسی وجہ سے حکومت کی کوشش ہے کہ آنے والے برسوں میں جدید علوم اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ملکی اکانومی کو دنیا کی صفِ اول میں لانے کے لئے ہر ممکن سعی کی جائے ۔
اس دو روزہ کانفرنس کے آخری اجلاس سے نجکاری کے وزیر مملکت’’ مفتاح اسماعیل ‘‘نے خطاب کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت کی کوششوں سے قومی امید ہے کہ آنے والے برسوں میں ملکی معاشیات کو جدید علوم کی بنیاد پر استوار کر لیا جائے گا ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر ‘‘ کے مطابق خاطر خواہ ڈھنگ سے ترقی نہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہا ۔
اِپری کے سربراہ ’’ امبیسیڈر سہیل امین ‘‘ نے اپنے اختتامی کلمات میں اس امر کا اظہار کیا کہ ماہرین نے یقیناًبڑی محنت اور کاوش سے اس صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور صورتحال میں بہتری کے لئے قابلِ قدر سفارشات پیش کی ہیں ۔ ان کے مطابق ملک میں تاحال نالج بیسڈ اکانومی قائم نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشی ماہرین اور اس پر دسترس رکھنے والے دانشوروں اور اقتصادی پیداواری یونٹوں کے مابین خاطر خواہ رابطے کا فقدان ہے ۔
بہر کیف توقع ہے کہ آئندہ برسوں میں حکومت اور معاشرے کے سبھی طبقات کی مشترکہ کاوشوں سے ان کمزوریوں پر قابو پا لیا جائے گا اور پاکستان میں علم پر مبنی معیشت قائم کرنے کا خواب اپنی عملی تعبیر حاصل کر لے گا ۔
چودہ ستمبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آبادپالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )