Newspaper Article 06/01/2015
ڈی جی ’’ آئی ایس پی آر‘‘ نے کہا ہے ک آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ اب کسی خاص علاقے تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ایک قومی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ مبصرین نے ان کی اس رائے کو حق بجانب قرار دیا اور اس پس منظر میں رائے ظاہر کی ہے کہ چونکہ عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین انسدادِ دہشتگردی کے لئے درکار وسیع تر سیاسی اتفاق رائے حاصل کر لیا گیا ہے ۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر کو سانحہ پشاور کے بعد 17 دسمبر کو پشاور کے گورنر ہاوس میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام قومی رہنما شامل ہوئے اور طے کیا گیا کہ ملک سے دہشتگردی کی لعنت کو ہمیشہ کے لئے جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا ۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے ایک سے زائد مرتبہ کہا کہ معصوم بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لیا جائے گا ۔ ور اب بحث کی بجائے عملی اقدامات کا وقت ہے ۔
24 دسمبر کو اسلام آباد میں دوبارہ قومی کانفرنس منعقد ہوئی جو 11 گھنٹے تک جاری رہی جس میں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے 20 نکاتی پروگرام پر اتفاق رائے ہوا اور اس کی جزئیات طے کرنے کے لئے مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں ۔ اس دوران دہشتگردی کے مرتکب کئی افراد کو تختہ دار پر بھی لٹکا دیا گیا ۔
2 جنوری کو تمام سیاسی اور عسکری قیادت 16 روز کے دوران تیسری بار اکٹھی ہوئی ۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ شدت پسندی پرضربِ کاری لگانے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے اور ان افراد اور گروہوں کو ان کے بلوں سے نکال کر کچل دیا جائے گا ۔ اس کے بعد سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنے مختصر مگر جامع خطاب میں اس امر کا اظہار کیا کہ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ ہارنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا اور اس ضمن میں خصوصی عدالتوں کا قیام ، مسلح افواج کی خواہش نہیں بلکہ یہ غیر معمولی حالات کا تقاضا اور وقت کی ضرورت ہے اور قوم کے مستقبل کا انحصار ہمارے آج کے فیصلوں پر منحصر ہے ۔
بہر کیف اس موقع پر خصوصی عدالتوں کے قیام اور آرمی ایکٹ میں ترمیم پر حتمی اتفاقِ رائے ہوا اور آئین کی 21 ویں ترمیم کا فیصلہ کر لیا گیا ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ کہ گذشتہ ایک عشرے میں شدت پسندوں نے پاکستانی قوم کو گہرے زخم لگائے ہیں اور 50 سے 60 ہزار کے درمیان معصوم شہری اور سیکورٹی فورسز کے افراد شہید کر دیے گئے اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ اس گھناؤنے کھیل میں کئی بیرونی قوتیں اپنے پاکستانی مہروں کے ذریعے وطنِ عزیز میں درندگی پر مبنی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
علاوہ ازیں مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو خط لکھ کر سخت الفاظ میں مطالبہ کیا ہے کہ سرحدوں پر امن قائم کیا جائے اور پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی سیالکوٹ سیکٹر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں پاکستانی رینجرز کی ہلاکت کے خلاف بھارت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ۔
غیر جانبدار مبصرین کی رائے ہے کہ اس مرحلے پر پاکستان کی قوم اور حکومت کو بھارت کی جانب سے بھی مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ گذشتہ چند روز کے دوران اس نے کئی ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جنہیں محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ مثال کے طور پر ایک جانب ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر تمام مروجہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلیگ میٹنگ کے بہانے یکم جنوری کو رینجرز اہلکاروں کو شہید کرنا ۔ علاوہ ازیں یہ پراپیگنڈہ کرنا کہ اسلحے سے بھری ہوئی ایک کشتی پاکستان کی جانب سے آ رہی تھی جسے بھارتی صوبے گجرات کے قریب سمندری حدود میں تباہ کیا گیا حالانکہ بھارتی اخبار ’’ انڈین ایکسپریس‘‘ اور سابق حکمران جماعت کانگرس نے کشتی کے واقعے کو ڈرامہ قرار دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی صوبے گجرات کی پولیس کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف جاری مشقوں ’’ موک ڈرل ‘‘ کے دوران ’’ سورت‘‘ ، ’’ نرمدا ‘‘ اور ’’ احمد آباد‘‘ میں اپنے سپاہیوں کو اسلامی ٹوپیاں پہنانا اور ان سے اسلام زندہ باد اور کشمیر زندہ باد کے نعرے لگوانا ، جس کی فوٹیج تمام ہندوستانی چینلز مثلاً ’’ زی نیوز ‘‘ ، آج تک ، نیوز نیشن اور انڈیا ٹی وی اور این ڈی ٹی وی نے یکم اور دو جنوری کو بڑی تفصیل سے دکھائی ۔
مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی صدر اوباما کے مجوزہ دورہ بھارت ( 26 جنوری ) سے پہلے بھارت پاکستان کو بد نام کرنے اور قومی ایکشن پلان کو نقصان پہنچانے کی غرض سے اپنے یہاں یا وطنِ عزیز میں کوئی بھی بڑی واردات کرا سکتا ہے ۔ یا ضربِ عضب سے توجہ ہٹانے کے لئے کوئی قدم اٹھا سکتا ہے ۔
توقع کی جانی چاہیے کہ وطنِ عزیز کے سبھی متعلقہ حلقوں کے علاوہ عالمی برادری بھی اس بابت ذمہ دارانہ کردار نبھائے گی ۔
چھ جنوری 2015 کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہو ا
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )