Newspaper Article 05/04/2015
بھارت میں سیکولر ازم اور جمہوریت کے الفاظ کچھ اس کثرت سے استعمال کیے جاتے رہے ہیں کہ گذشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں بیرونی دنیا اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئی کہ شاید ہندوستان میں واقعتا سیکولر ازم اور جمہوریت اپنے حقیقی معنوں میں موجود ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اصل حقائق دنیا کے سامنے آتے چلے گئے خاص طور پر گذشتہ ایک عشرے کے دوران جب سے ذرائع ابلاغ نے حیرت انگیز حد تک ترقی کی ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا واقعتا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے ۔
ایسے میں عالمی رائے عامہ ہندوستان میں بڑھ رہی مذہبی انتہا پسندی سے مزید چشم پوشی نہیں کر سکی تبھی تو دو ماہ پہلے جب امریکی صدر بھارت کے دورہ پر آئے تو وہ بھی جاتے جاتے دہلی کے حکمرانوں کو نصیحت کرتے گئے کہ’’ اگر انہوں نے واقعتا ترقی کرنی ہے تو مذہبی رواداری کو اپنانا ہو گا ‘‘۔ اس کے بعد امریکہ میں جا کر بھی اوبامہ نے ایسے خیالات کا اظہار کیا ۔ علاوہ ازیں ’’ ایمنسٹی انٹر نیشنل ‘‘ اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے اب تسلسل کے ساتھ یہ اعتراف کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہندوستان میں انتہا پسند ہندو نظریات خطر ناک حد تک بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسی پس منظر میں نیو یارک ٹائمز جیسے موثر اخبار نے بھی ’’ مودی کی خطرناک خاموشی‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ اداریہ بھی لکھا جس میں کہا گیا کہ موجودہ بھارتی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں جس کثرت سے مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور مودی اس پر خاموش ہیں تو بظاہر اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو مودی اس صورتحال پر قابو پانا ہی نہیں چاہتے یا ان میں اس کی اہلیت ہی نہیں ہے گویا بھارتی حکمرانوں کی نیت اور اہلیت دونوں کی بابت سوالیہ نشان کھڑے کیے گئے ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مودی کے دس ماہ کے اقتدار کے دوران حکمران پارٹی کے اکثر رہنماؤں نے ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینے کی شعوری کوشش کی ہے تبھی تو ایک جانب مہاراشٹر اور ہریانہ کی حکومتوں نے بڑے گوشت کے ذبیحہ پر مکمل پابندی عائد کر دی حالانکہ بھارت کی داخلی سیاست پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گائے کو ذبح کرنے پر تو 1976 سے ہی ہندوستان کے اکثر صوبوں میں مکمل پابندی عائد ہے ۔ لیکن موجودہ حکمرانوں نے ’’ گؤ ماتا کی حفاظت ‘‘ کے نام پر مہاراشٹر اور ہریانہ میں تو پوری طرح بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی ہے حالانکہ ہندوستان کے تین صوبوں یعنی مہاراشٹر ، پنجاب اور یو پی سے ہر برس بڑے گوشت کی بر آمد سے ہندوستان کئی ارب روپے کا زرِ مبادلہ کماتا ہے اور یوں اس پابندی سے خود بھارت کے بہت سے غیر مسلم شہری بھی متاثر ہوئے ہیں اور ہندوستان میں کیتھولک عیسائی فرقے کے سربراہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’ بھارت میں حکمرانوں کو گائے کی حفاظت کا تو خیال ہے مگر معصوم مذہبی اقلیتوں کی جان و مال کو جان بوجھ کر داؤ پر لگایا جا رہا ہے ‘‘۔
یاد رہے کہ چند روز پہلے 26 مارچ کو بھارتی وزیر داخلہ ’’ راج ناتھ سنگھ ‘‘ نے مدھیہ پردیش کے شہر’’ اندور‘‘ میں ’’ جین دھر م کانفرنس ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پورے بھارت میں بڑے جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی لگانے کی بابت انتہائی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے ‘‘ ۔
دوسری طرف ’’ بی جے پی ‘‘ اور اس کے اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ اور وزراء مثلاً ’’ گری راج سنگھ ‘‘ ، ’’ سادھوی ترنجن جیوتی ‘‘ ، ’’ سوامی آدتیا نند ‘‘ ، ’’ ساکشی مہاراج ‘‘ ، ’’ سادھوی پراچی ‘‘ ، ’’ پروین تگوڑیا ‘‘ ، اور خود موہن بھاگوت آئے روز مذہبی اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کرتے رہتے ہیں ۔ سبرا منیم سوامی کا کہنا تو یہ ہے کہ وہ مسجد اور گرجے کو عبادت گاہ ہی نہیں مانتے اس لئے ان کا گرایا جانا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے ۔ تین اپریل کو بھارت کے اکثر اخباروں میں یہ خبر نمایاں ڈھنگ سے شائع ہوئی کہ گجرات کی ’’ وڈودرا ‘‘ ضلع میں’’ چار سو ساٹھ ‘‘مسلم خاندانوں کو نئے تعمیر شدہ مکانوں میں شفٹ نہیں کیا جا رہا کیونکہ ان کے ہندو پڑوسیوں نے اجتماعی طور پر تحریری درخواست دی ہے کہ وہ اپنے قریب مسلمان پڑوسیوں کو برداشت نہیں کر سکتے ‘‘ ۔
دوسری جانب پاکستان میں ہندو اور دیگر اقلیتیں کو مساوی شہری حقوق میسر ہیں جس کا تازہ ثبوت پاکستانی ہندو رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن ’’لعل چند ملہی ‘‘ کا انٹر ویو ہے جو انہوں نے سات مارچ 2015 کو ’’ تہلکہ ڈاٹ کام ‘‘دیا ۔ جس میں انہوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ ’’ پاکستان میں ان کو زندگی کے ہر شعبے میں اپنے دیگر پاکستانی بھائیوں کی طرح آگے بڑھنے کے مساوی مواقع حاصل ہیں ‘‘۔
بہر کیف امید کی جانی چاہیے کہ بھارتی حکمران اپنے یہاں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی پر قابو پائیں گے وگرنہ اس کے اثرات علاقائی اور عالمی امن کے ساتھ ساتھ خود ہندوستان کی سلامتی کو بھی بری طرح متاثر کر سکتے ہیں ۔
پانچ اپریل کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )