Newspaper Article 10/12/2014
پانچ دسمبر 2014 کو مقبوضہ ریا ست کے ’’ اوڑی ‘‘ سیکٹر میں قابض بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملے کے واقعہ میں لیفٹیننٹ کرنل ’’ سنکلپ کمار شکلا ‘‘ سمیت 11 بھارتی فوج کے افسر اور اہلکار مارے گئے ۔ اپنی دیرینہ روایت کے عین مطابق بھارتی حکمرانوں نے اس ضمن میں پاکستان اور اس کے اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی مذموم مہم شروع کر دی اور اس ضمن میں طرح طرح کے فسانے گھڑے جا رہے ہیں۔
اس پس منظر کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا مجموعی رقبہ 86 ہزار مربع میل ہے ۔جس میں سے 63 فیصد علاقہ گزشتہ پچپن برسوں سے بھارت کے ناجائز تسلط میں ہے اور اسی تنازعے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں کئی بار کھلی جنگوں کی نوبت آچکی ہے اور اس وقت بھی جنوبی ایشیا میں جاری تناؤ اور کشیدگی کی وجہ بھی یہی مسئلہ ہے ۔کیونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردوں کے باوجود بھارتی حکمران ایک کروڑ سے زائد کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق استصواب رائے دینے پر آمادہ نہیں اور اپنی ریاستی دہشت گردی کے بل بوتے پر اپنے ناجائز تسلط کو طول دینے پر آمادہ ہیں ۔ہندوستان نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر ایک ہمہ جہتی حکمت عملی اپنا رکھی ہے ۔ایک جانب سات لاکھ سے زائد مسلح افواج کی مدد سے مظلوم عوام پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھا جارہا ہے اور دوسری جانب سیاسی اور سفارتی محاذ پر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی خاطر مختلف مواقع پر طرح طرح کے ہتھکنڈوں کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے ۔ ۔اسی پس منظر میں مودی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد گذشتہ چند مہینوں میں آٹھ بار مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا ہے۔
اس ضمن میں ان دنوں مقبوضہ کشمیر میں کٹھ پتلی اسمبلی کے انتخابات کا ڈھونگ رچایا جائے گا اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی جائے گئی کہ مقبوضہ ریاست بھی بھارت کے دوسرے صوبوں کی طرح بھارتی فیڈریشن کا حصہ ہے ۔یہ انتخابات پانچ مختلف مراحل یعنی 25 نومبر ، 2 دسمبر ، 9 دسمبر ، 14 دسمبر اور آخری مرحلہ 20 دسمبر کو ہونا طے پایا ہے جن میں سے پہلے تین مرحلے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ نتائج 23 دسمبر کو سامنے آئیں گے ۔
یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ مئی کے آخری ہفتے میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مودی حکومت مسلسل اس کوشش میں لگی ہے کہ کسی بھی طور مقبوضہ ریاست یہ نام نہاد اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کر کے وہاں BJP کی حکومت بنا لے ۔ اسی وجہ سے مودی اب تک مقبوضہ کشمیر کے 8 دورے کر چکے ہیں اور اپنے اس ہدف کی تکمیل کو موصوف نے مشن 44 کا نام دے رکھا ہے یعنی 87 رکنی اسمبلی میں کم از کم 44 سیٹیں حاصل ہو سکیں ۔
آزادی پسند کشمیری قائدین کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی خاطر ممکنہ طور پر خود بھارتی خفیہ اداروں نے تشدد کے حالیہ واقعات کرائے ہیں ۔ جس طرح اس سے پہلے 13 دسمبر 2001 کو خود بھارتی اداروں نے ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کا ناٹک رچایا اور اس کی آڑ لے کر پاکستان سے کسی حد تک سفارتی تعلقات تک منقطع کر لئے ۔’’ پی آئی اے ‘‘ کو بھارتی فضا کے استعمال سے روک دیا گیا اور بین الاقوامی سرحد اور ایل او سی پر پانچ لاکھ بھاتی فوج اور تین آرمڈ ڈویژن حملے کے لئے تعینات کر دیئے گئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی روایتی اور غیر روایتی جنگی صلاحیتوں کی بنا پر بھارت کو حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ اس ضمن میں تب عالمی برادری نے بھی خاصا فعال کردار ادا کیا تھا مگر اس معاملے کا یہ پہلو زیادہ قابل توجہ ہے پارلیمنٹ پر مبینہ حملے کے اس مقدمے کی سماعت کے بعد خود بھارتی عدالتوں نے تسلیم کیاکہ اس واقع میں مبینہ طور پر ملوث تمام کردار ہندوستان یا مقبوضہ کشمیر کے شہری تھے۔علاوہ ازیں بھارتی وزارتِ داخلہ کے سیکرٹری لیول کے افسر ’’ ستیش اگروال ‘‘ نے بھی اپنے بیان حلفی میں اس بھارتی ڈرامے کا پردہ چاک کیا تھا ۔تبھی تو بھارت کی داخلی سیاست پر نگاہ رکھنے والے اکثر مبصرین کی رائے ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ واقعات کے پس پردہ بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈووال اور ’’ بی ایس ایف ‘‘ کے ڈ ی جی ’’ دیوندر کمار پاٹھک ‘‘ ہیں کیونکہ خود بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ دو ماہ میں انڈین پرائم منسٹر نے دو سے زائد مرتبہ ’’ بی ایس ایف ‘‘ سربراہ ’’ پاٹھک ‘‘ سے براہ راست اور بالمشافہ ملاقات اور طویل گفتگو کی ہے جبکہ اس سے پہلے آج تک کسی بھارتی پرائم منسٹر نے ’’ بی ایس ایف ‘‘ کے سربراہ سے ڈائرکٹ گفتگو نہیں کی بلکہ ہوم سیکرٹری یا ہوم منسٹر کے توسط سے بات چیت ہوتی رہی ہے ۔مندرجہ بالا تجزیے سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ حالیہ وارداتوں کے پس پردہ خود دہلی کا اقتدار اعلیٰ اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔
دس دسمبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )