Newspaper Article 20/03/2016
بھارتی وزرتِ خارجہ کے سیکرٹری ’’ جے شنکر ‘‘ نے کہا ہے کہ جب تلک پاکستان بات چیت کے لئے ساز گار ماحول تیار نہیں کرتا تب تک دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کے مابین ہونے والے مجوزہ مذاکرات ممکن نہیں ۔ یاد رہے کہ پچیس دسمبر کو مودی کی لاہور یاترا کے بعد کہا جا رہا تھا کہ پندرہ جنوری کو دہلی میں پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات ہو گی جس سے سشما سوراج کے دورہ اسلام آباد کے دوران نو دسمبر کو ’’ کمپری ہینسیو بائی لیٹرل ڈائیلاگ ‘‘ کے نام سے جو مفاہمت ہوئی تھی ، اس کا عملی آغاز ہو جائے گا مگر دہلی سرکار نے حسب روایت تا حال اس معاملے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے ۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے غالباً ’’ انور مسعور ‘‘ کے یہی شعر دہرائے جا سکتے ہیں ۔
ٹاہلی تھلے ملن دا وعدہ اَوہنے کیتا سی
ٹاہلی جِتھے دسی سی ، اَوتھے تے کھجور اے
اِیندے وچ تُسی دسو، میرا کی قصور اے ؟
دوسری جانب بھارت میں بڑھ رہے عدم برداشت کے ماحول میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب پانچ مارچ کو یو پی کے ضلع ’’ بدایوں ‘‘ میں BJP یوتھ ونگ کے صدر ’’ کلدیپ وشنو ‘‘ نے اعلان کیا کہ ’’ جے این یو ‘‘ یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر ’’ کنہیا کمار ‘‘ کی زبان کاٹنے والے کو اس کی طرف سے پانچ لاکھ روپیہ انعام دیا جائے گا ۔ اسی کے ساتھ ساتھ بھارتی راجدھانی دہلی کے اکثر چوراہوں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے ارد گرد کے علاقوں میں ہر جانب ایسے پوسٹر چسپاں کیے گئے ہیں جس میں ’’ پورو آنچل سینا ‘‘ نام کی ایک ہندو تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ ’’ کنہیا کمار ‘‘ کا ’’ سر ‘‘ کاٹنے والے کو گیارہ لاکھ دیا جائے گا ۔ اس تنظیم کے صدر ’’ آدرش شرما ‘‘ کی جانب سے یہ پوسٹر سامنے آئے ہیں اور ان پر اس جنونی گروہ کے سربراہ کا نہ صرف پورا ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر درج ہے بلکہ اس کا ٹویٹر اکاؤنٹ ’’ ایٹ دی ریٹ آف آدرش ‘‘ بھی موجود ہے ۔
اسی تناظر میں دنیا بھر کی مانند بھارت میں آٹھ مارچ کو ’’ خواتین کا عالمی دن ‘‘ منایا جا رہا ہے ۔ اسی پس منظر کا جائزہ لیتے غیر جانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ ’’ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو ‘‘ سمیت بھارت کے سبھی ادارے اس امر پر متفق ہیں کہ گذشتہ پونے دو برس میں بھارت میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں ستائیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور راجدھانی دہلی سمیت پورے ملک میں خواتین بے حرمتی کے واقعات خطر ناک حد تک بڑھ گئے ہیں ۔ تبھی تو گذشتہ برس ’’ بی بی سی ‘‘ کی تیار کردہ دستاویزی فلم ’’ انڈیا ز ڈاٹر ‘‘ کی بنا پر بھارتی سیاست اور معاشرے میں کہرام مچ گیا تھا ۔ ’’ بی بی سی ‘‘ نے یہ فلم گذشتہ آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے دکھانے کا پروگرام بنایا مگر اس سے چند روز قبل تین مارچ کو بھارتی حکومت نے اعلیٰ ترین سطح پر اس موقف کا اعلان کیا کہ بھارت میں اس کی نمائش کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی ۔ انڈین ہوم منسٹر ’’ راج ناتھ سنگھ ‘‘ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں یہ کہا تھا مگر ’’ بی بی سی ‘‘ نے پانچ مارچ کو نہ صرف یہ فلم دکھائی بلکہ اس امر کا اظہار کیا کہ وہ اس بھارتی موقف سے اتفاق نہیں کرتی اور آئندہ بھی یہ فلم دکھائی جاتی رہے گی ۔ کیونکہ اس میں بھارت میں خواتین کے خلاف ہونے والے مسلسل استحصال کا ذکر ہے ۔
’’ بی جے پی ‘‘ کی خاتون ترجمان ’’ میناکشی لیکھی ‘‘ نے ’’ بی بی سی ‘‘ کو ہدف تنقید بناتے کہا کہ اس دستاویزی فلم کے نشر ہونے کے بعد بھارت میں سیر و سیاحت کے لئے آنے والی غیر ملکی خواتین کی تعداد میں بہت نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دہلی سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ ’’ چہرہ بد صورت ہو تو آئینہ توڑنے سے چہرے کی بد صورتی دور نہیں ہوتی ‘‘ ۔
اسی کے ساتھ ساتھ مودی کچھ روز بعد یعنی تیس مارچ کو بیلجئم سمیت تین ملکی دورے پر جا رہے ہیں ۔ ایسے میں اکثر انسان دوست حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ موصوف کے دورہ ’’ بلجیم ‘‘ کے دوران اعتدال پسند حلقوں کی جانب سے سخت رد عمل ظاہر کرنے کا قوی امکان ہے ۔ کیونکہ ’’ نریندر مودی ‘‘ نے جب تین ماہ قبل بر طانیہ کا دورہ کیا تھا ، تب بھی ان کی وہاں آمد کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا تھا ۔ اور اب بھی بیلجئم کے انسان دوست حلقے مودی کے مجوزہ دورے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں ۔
ان کا موقف یہ ہے کہ مودی جیسی شخصیت جس پر 2002 کے اوائل میں صوبہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام ہے ، ایسے فرد کے برسلز آنے سے عالمی سطح پر بیلجئم کی عزت میں قطعاً اضافہ نہیں ہو گا بلکہ عالمی برادری میں یہ پیغام جائے گا کہ انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعویدار بیلجئم اور یورپی یونین میں اچھی روایات بڑی تیزی سے دم توڑ رہی ہیں ۔ ( یقیناًیہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ برسلز یورپی یونین پارلیمنٹ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے ) ۔
یوں بھی مودی کی قیادت میں ’’ بی جے پی ‘‘ کی حالیہ سرکار بننے کے بعد بھارت میں اقلیتوں اور اچھوت ہندوؤں کے خلاف ہر طرح کے تشدد میں خطر ناک حد اضافہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ بتدریج جاری ہے ۔ بلکہ نو فروری کو دہلی کی ’’ جے این یو ‘‘ میں ہونے والے واقعے کے بعد سے تو حکومتی سرپرستی میں ہندو گروہ اپنے مخالفین کو ہر طرح کے استحصال کا نشانہ بنا رہے ہیں اور یہ سلسلہ کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے ۔
تبھی تو پانچ مارچ کو یو پی کی الہٰ باد یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کی خاتون صدر ’’ ریچا سنگھ ‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ ’’ بی جے پی ‘‘ اور اس کا سٹوڈنٹ ونگ ’’ اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد ‘‘ اس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں کیونکہ موصوف کا تعلق اچھوت گھرانے سے ہے ۔ اور یہ معاملہ یہیں پر ہی ختم ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ ’’ بی جے پی ‘‘ کے رکن لوک سبھا ’’ سوامی ادتیہ نند ‘‘ نے پانچ مارچ کو ہی گورکھ پور میں کہا کہ بھارت میں کسی دوسرے ’’ جناح ‘‘ ( قائد اعظم ) کو پیدا نہیں ہونے دیا جاے گا بلکہ اگر کسی نے جناح بننے کی کوشش کی تو اسے زمین میں گاڑ دیا جائے گا ۔ انتہا پسندی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے ۔
ایسے میں بھی اگر بیلجئم اور دیگر مہذب ملکوں میں مودی کو خوش آمدید کہا گیا تو یہ انسانی اقدار پر یقین رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی ۔
آٹھ مارچ کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )