Newspaper Article 03/06/2014
بھارتی وزیرِ اعظم مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد دنیا بھر میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات رکھنا چاہیں گے۔ان قیاس آرائیوں کی وجہ یہ ہے کہ نریندر مودی، ’’آر ایس ایس‘‘اور ’بی جے پی‘‘ نے اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران براہ راست یا بالواسطہ طور پر مسلم مخالف جذبات کو ہوا دی جس کے نتیجے میں اونچی اور متوسط ذات کے علاوہ اچھوت ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نے بھی انہیں ووٹ دیا جس کی وجہ سے شاندار جیت مودی کا مقدر بنی اور وہ ’’ہندو توا ‘‘ کی ایک بڑی علامت کے طور پر سامنے آئے۔اگرچہ انہوں نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے سارک کے سبھی ملکوں کے سربراہوں کو اپنی حلفِ وفاداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔مگر اس کے ساتھ ’’ماریشش‘‘ کے ہندو وزیرِ اعظم’’ رام غلام‘‘ کو بھی دعوت دینا نہیں بھولے حالانکہ ماریشش کسی بھی حوالے سے سارک ممالک میں شمار نہیں ہوتا ۔
مودی نے حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے جو اہم ترین تعیناتی کی اس سے بظاہر لگتا ہے کہ وہ پڑوسی ملکوں خصوصاً پاکستان کے اندر پہلے سے جاری مداخلت کو خطرناک حد تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ۲۸ مئی کو ’’اجیت کمار ڈووال‘‘ کو بھارت کا پانچواں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا گیا۔یاد رہے کہ یہ عہدہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۸ کو ’’بی جے پی ‘‘کے اس وقت کے وزیرِ اعظم ’’اٹل بہاری واجپائی‘‘ نے تخلیق کیا تھا اور ’’برجیش مشرا‘‘ کو پہلا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا جو مئی ۲۰۰۴ تک اس منصب پر فائز رہے ۔موصوف کا تعلق انڈین فارن سروس سے تھا۔مئی ۲۰۰۴ میں منموہن سنگھ نے ’’جے این ڈکشت‘‘ کو دوسرا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا۔جو ۳جنوری ۲۰۰۵ کو وفات پا گئے۔ان کا تعلق بھی فارن سروس سے تھا۔اس کے بعد بھارت کے تیسرے ’’ین ایس اے‘‘کے طور پر ’’ایم کے نارائینن‘‘ سامنے آئے جو جنوری ۲۰۱۰ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ان کا تعلق انڈین پولیس سروس سے ہے اور آج کل مغربی بنگال کے گورنر ہیں۔جنوری ۲۰۱۰ تا مئی ۲۰۱۴ سابق فارن سیکرٹری ’’ شیو شنکر مینن‘‘ چوتھے ’’این ایس اے‘‘رہے اور اب مودی نے ’’اجیت ڈووال‘‘ کو اس منصب پر فائز کیا ہے ۔
موصوف کا حدود و اربعہ بہت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔وہ اتر کھنڈ کے علاقے ’’گڑھ وال‘‘ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۸ میں بھارتی صوبے کیرالہ کے پولیس کیڈر میں شامل ہوئے۔ان کو اچھی کارکردگی کی بنا پر محض ۶ سال کی سروس کے بعد پریذیڈنٹ پولیس میڈل دیا گیا۔جبکہ عام طور پر ۱۷ سال کی سروس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا ۔اس کے علاوہ انھوں نے شمال مشرقی بھارت کی آزادی پسند تنظیم ’’میزو نیشنل فرنٹ ‘‘ میں بڑی کامیابی سے نفاق پیدا کیا۔اس سلسلے میں موصوف نے برما کے علاقے اراکان اور چین کے اندر بھی کافی وقت گزارا۔اور اپنی ذہانت اور شاطرانہ حکمتِ عملی کے ذریعے میزو رام کی علیحدگی پسند تحریک کو بڑی حد تک ختم کر دیا جس کا اعتراف میزو رہنما ’’لال ڈینگا‘‘ نے بھی کیا ۔
اجیت ڈووال ۶ سال تک خفیہ طور پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقیم رہا اور کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کی جاسوسی کے فرائض انجام دیتا رہا۔اس کے صلے میں بھارتی حکومت نے اسے شجاعت کا دوسرا بڑا اعزاز ’’کیرتی چکر‘‘ دیا۔واضح رہے کہ بھارت کی مسلح افواج سے تعلق نہ رکھنے والی یہ واحد شخصیت ہے جس کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے۔اس موقع پر بھارتی وزیرِ اعظم نے فائل پر یہ بھی لکھا کہ آئندہ کے لئے اس کیس کو بطورِ نظیر یا مثال نہ بنایا جائے ۔
۱۹۸۸میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ’’دربار صاحب ‘‘ امرتسر میں بھارتی فوج نے آپریشن بلیک تھنڈر کے نام سے جو کاروائی کی اس میں اس وقت اجیت ڈووال عقیدت مند کے بہروپ میں دربار صاحب کے اندر موجود تھا اور وہیں سے انڈین آرمی کو سکھ حریت پسندوں کی معلومات فراہم کرتا رہا۔اس آپریشن میں ۴۱ سکھ جانباز مارے گئے اور دو سو سے زیادہ گرفتار کر لئے گئے۔ خالصتان تحریک کچلنے میں ۱۹۹۲ میں ہونے والے بھارتی پنجاب اسمبلی کے صوبائی انتخابات کے انعقاد نے نمایاں کردار ادا کیا۔بھارتی حلقوں کے بقول ۱۹۹۲ کے صوبائی انتخابات کی منصوبہ بندی کا زیادہ تر کریڈٹ موصوف کو جاتا ہے۔
اس کے بعد اجیت ڈووال کو مقبوضہ کشمیر بھیج دیا گیا۔جہاں جا کر اس نے کشمیری حریت پسندوں کے مابین اختلافات اور گروہ بندی قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور محمد یوسف عرف کوکا پیرے کی قیادت میں ایک ایسا گروہ تشکیل دیا جو کشمیری حریت پسندوں اور پاکستان کے حامی کشمیری عوام کو نشانہ بناتا تھا۔کوکا پیرے کے گروہ نے اجیت ڈووال کی شہ پر کم از کم ۳۰۰۰ معصوم کشمیریوں کو شہید کیا۔واضح رہے کہ کوکا پیرے ’’جموں کشمیر عوامی لیگ‘‘ اور بھارت نواز’’ اخوان المسلمین‘‘ کا بانی تھا۔
بہر کیف ۱۳ ستمبر ۲۰۰۳ کو کوکا پیرے کشمیری حریت پسندوں کے ہاتھوں مارا گیا۔اس کا بیٹا امتیاز پیرے مقبوضہ کشمیر میں کانگرس کا فعال رکن ہے۔
۱۹۹۹میں ایئر انڈیا کا جو ہوائی جہاز اغوا کر کے قندھار لے جایا گیا تھا ۔اس جہاز کے اغوا کاروں سے مذاکرات کرنے والی بھارتی ٹیم کی قیادت اجیت ڈووال نے کی۔ ۲۰۰۴ سے ۲۰۰۵ تک وہ انڈین انٹیلی جنس بیورو کے چیف رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد ’’بی جے پی‘‘کے تھنک ٹینک ’’واویکا نند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘‘ کے سربراہ کے طور پر چند روز پہلے تک کام کر رہے تھے۔ایسی شخصیت کی اتنی اہم عہدے پر تعیناتی یقیناً پاکستان اور دیگر اعتدال پسند حلقوں کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔یاد رہے کہ بھارت کے تمام خفیہ ادارے بشمول ’’را‘‘اور ’’آئی بی ‘‘بھی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے ماتحت ہوتے ہیں۔
بہرحال توقع کی جانی چاہیے کہ بھارت کے نئے حکمران خطے میں کسی نئی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنیں گے وگرنہ عمل اور ردِ عمل کا ایسا سنگین سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جس کا تصور بھی شاید بھارت کے بالا دست طبقات کو نہ ہو۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )
بھارتی وزیرِ اعظم مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد دنیا بھر میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات رکھنا چاہیں گے۔ان قیاس آرائیوں کی وجہ یہ ہے کہ نریندر مودی، ’’آر ایس ایس‘‘اور ’بی جے پی‘‘ نے اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران براہ راست یا بالواسطہ طور پر مسلم مخالف جذبات کو ہوا دی جس کے نتیجے میں اونچی اور متوسط ذات کے علاوہ اچھوت ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نے بھی انہیں ووٹ دیا جس کی وجہ سے شاندار جیت مودی کا مقدر بنی اور وہ ’’ہندو توا ‘‘ کی ایک بڑی علامت کے طور پر سامنے آئے۔اگرچہ انہوں نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے سارک کے سبھی ملکوں کے سربراہوں کو اپنی حلفِ وفاداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔مگر اس کے ساتھ ’’ماریشش‘‘ کے ہندو وزیرِ اعظم’’ رام غلام‘‘ کو بھی دعوت دینا نہیں بھولے حالانکہ ماریشش کسی بھی حوالے سے سارک ممالک میں شمار نہیں ہوتا ۔
مودی نے حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے جو اہم ترین تعیناتی کی اس سے بظاہر لگتا ہے کہ وہ پڑوسی ملکوں خصوصاً پاکستان کے اندر پہلے سے جاری مداخلت کو خطرناک حد تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ۲۸ مئی کو ’’اجیت کمار ڈووال‘‘ کو بھارت کا پانچواں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا گیا۔یاد رہے کہ یہ عہدہ ۱۹ نومبر ۱۹۹۸ کو ’’بی جے پی ‘‘کے اس وقت کے وزیرِ اعظم ’’اٹل بہاری واجپائی‘‘ نے تخلیق کیا تھا اور ’’برجیش مشرا‘‘ کو پہلا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا جو مئی ۲۰۰۴ تک اس منصب پر فائز رہے ۔موصوف کا تعلق انڈین فارن سروس سے تھا۔مئی ۲۰۰۴ میں منموہن سنگھ نے ’’جے این ڈکشت‘‘ کو دوسرا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کیا۔جو ۳جنوری ۲۰۰۵ کو وفات پا گئے۔ان کا تعلق بھی فارن سروس سے تھا۔اس کے بعد بھارت کے تیسرے ’’ین ایس اے‘‘کے طور پر ’’ایم کے نارائینن‘‘ سامنے آئے جو جنوری ۲۰۱۰ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ان کا تعلق انڈین پولیس سروس سے ہے اور آج کل مغربی بنگال کے گورنر ہیں۔جنوری ۲۰۱۰ تا مئی ۲۰۱۴ سابق فارن سیکرٹری ’’ شیو شنکر مینن‘‘ چوتھے ’’این ایس اے‘‘رہے اور اب مودی نے ’’اجیت ڈووال‘‘ کو اس منصب پر فائز کیا ہے ۔
موصوف کا حدود و اربعہ بہت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔وہ اتر کھنڈ کے علاقے ’’گڑھ وال‘‘ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۸ میں بھارتی صوبے کیرالہ کے پولیس کیڈر میں شامل ہوئے۔ان کو اچھی کارکردگی کی بنا پر محض ۶ سال کی سروس کے بعد پریذیڈنٹ پولیس میڈل دیا گیا۔جبکہ عام طور پر ۱۷ سال کی سروس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا ۔اس کے علاوہ انھوں نے شمال مشرقی بھارت کی آزادی پسند تنظیم ’’میزو نیشنل فرنٹ ‘‘ میں بڑی کامیابی سے نفاق پیدا کیا۔اس سلسلے میں موصوف نے برما کے علاقے اراکان اور چین کے اندر بھی کافی وقت گزارا۔اور اپنی ذہانت اور شاطرانہ حکمتِ عملی کے ذریعے میزو رام کی علیحدگی پسند تحریک کو بڑی حد تک ختم کر دیا جس کا اعتراف میزو رہنما ’’لال ڈینگا‘‘ نے بھی کیا ۔
اجیت ڈووال ۶ سال تک خفیہ طور پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقیم رہا اور کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کی جاسوسی کے فرائض انجام دیتا رہا۔اس کے صلے میں بھارتی حکومت نے اسے شجاعت کا دوسرا بڑا اعزاز ’’کیرتی چکر‘‘ دیا۔واضح رہے کہ بھارت کی مسلح افواج سے تعلق نہ رکھنے والی یہ واحد شخصیت ہے جس کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے۔اس موقع پر بھارتی وزیرِ اعظم نے فائل پر یہ بھی لکھا کہ آئندہ کے لئے اس کیس کو بطورِ نظیر یا مثال نہ بنایا جائے ۔
۱۹۸۸میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ’’دربار صاحب ‘‘ امرتسر میں بھارتی فوج نے آپریشن بلیک تھنڈر کے نام سے جو کاروائی کی اس میں اس وقت اجیت ڈووال عقیدت مند کے بہروپ میں دربار صاحب کے اندر موجود تھا اور وہیں سے انڈین آرمی کو سکھ حریت پسندوں کی معلومات فراہم کرتا رہا۔اس آپریشن میں ۴۱ سکھ جانباز مارے گئے اور دو سو سے زیادہ گرفتار کر لئے گئے۔ خالصتان تحریک کچلنے میں ۱۹۹۲ میں ہونے والے بھارتی پنجاب اسمبلی کے صوبائی انتخابات کے انعقاد نے نمایاں کردار ادا کیا۔بھارتی حلقوں کے بقول ۱۹۹۲ کے صوبائی انتخابات کی منصوبہ بندی کا زیادہ تر کریڈٹ موصوف کو جاتا ہے۔
اس کے بعد اجیت ڈووال کو مقبوضہ کشمیر بھیج دیا گیا۔جہاں جا کر اس نے کشمیری حریت پسندوں کے مابین اختلافات اور گروہ بندی قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور محمد یوسف عرف کوکا پیرے کی قیادت میں ایک ایسا گروہ تشکیل دیا جو کشمیری حریت پسندوں اور پاکستان کے حامی کشمیری عوام کو نشانہ بناتا تھا۔کوکا پیرے کے گروہ نے اجیت ڈووال کی شہ پر کم از کم ۳۰۰۰ معصوم کشمیریوں کو شہید کیا۔واضح رہے کہ کوکا پیرے ’’جموں کشمیر عوامی لیگ‘‘ اور بھارت نواز’’ اخوان المسلمین‘‘ کا بانی تھا۔
بہر کیف ۱۳ ستمبر ۲۰۰۳ کو کوکا پیرے کشمیری حریت پسندوں کے ہاتھوں مارا گیا۔اس کا بیٹا امتیاز پیرے مقبوضہ کشمیر میں کانگرس کا فعال رکن ہے۔
۱۹۹۹میں ایئر انڈیا کا جو ہوائی جہاز اغوا کر کے قندھار لے جایا گیا تھا ۔اس جہاز کے اغوا کاروں سے مذاکرات کرنے والی بھارتی ٹیم کی قیادت اجیت ڈووال نے کی۔ ۲۰۰۴ سے ۲۰۰۵ تک وہ انڈین انٹیلی جنس بیورو کے چیف رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد ’’بی جے پی‘‘کے تھنک ٹینک ’’واویکا نند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘‘ کے سربراہ کے طور پر چند روز پہلے تک کام کر رہے تھے۔ایسی شخصیت کی اتنی اہم عہدے پر تعیناتی یقیناً پاکستان اور دیگر اعتدال پسند حلقوں کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔یاد رہے کہ بھارت کے تمام خفیہ ادارے بشمول ’’را‘‘اور ’’آئی بی ‘‘بھی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے ماتحت ہوتے ہیں۔
بہرحال توقع کی جانی چاہیے کہ بھارت کے نئے حکمران خطے میں کسی نئی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنیں گے وگرنہ عمل اور ردِ عمل کا ایسا سنگین سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جس کا تصور بھی شاید بھارت کے بالا دست طبقات کو نہ ہو۔
چار جون کو ڈیلی پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)