Newspaper Article 16/05/2018
قوموں کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مراحل درپیش آتے ہیں، جو ظاہری طور پر بہت مشکل اور صبر آزما ہوتے ہیں باہمت اقوام کا یہ وصف ہوتا ہے کہ ان وہ چیلنجوں کو ’’مواقع‘‘ میں تبدیل کر لیتی ہیں۔ ساڑے تین سال قبل 16 دسمبر 2014 کو پشاور اے پی ایس میں جو انتہا افسوس ناک المیہ پیش آیا ‘اس کو تاحال قومی سطح پر پوری طرح سے ایک ’’موقع ‘‘میں نہیں ڈھالا جا سکا۔ اگرچہ اس سمت میں پیش رفت جاری ہے مگر تاحال شاید اس بابت اطمینان بخش نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول میں جو سانحہ ہوا، اس نے یکدم پوری ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اور تمام طبقات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
اسی تناظر میں حکومت پاکستان نے سبھی متعلقہ فریقین کی باہمی مشاورت سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ وطن عزیز کو درپیش دہشتگردی اور انتہا پسندی کے سنگین خطرات کا تمام حکومتی و ریاستی ادارے کس طور تدارک کریں گے اور کس ڈھنگ سے اس مخدوش صورتحال کا موثر اور مربوط طریقے سے سامنا کیا جائے گا۔اسی حوالے سے پارلیمنٹ کا خصوصی ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں سبھی سیاسی جماعتوں نے بھرپور ڈھنگ سے شرکت کی۔ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا اعلان کیاگیا۔اس حوالے سے ابتدائی ہفتوں میں کافی اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بوجوہ یہ امر اس حد تک نتیجہ خیز اور باآور ثابت نہ ہو پایا جس کی توقع کی گئی تھی۔ اس ضمن میں اگرچہ کافی پیش رفت بھی ہوئی اور ضرب عضب اور رد الفساد کے تحت دہشتگردی کے ڈھانچے کو کافی حد تک کمزور بھی کیا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود اکا دکا واقعات نہ صرف جاری ہیں بلکہ گذشتہ چند مہینوں میں دہشتگردی کی یہ عفریت یوں لگتا ہے جیسے نئی نئی شکلیں بدل کر پھن پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس میں اب کئی چھوٹے اور بڑے گروہ مختلف ناموں سے پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت بجا طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔
اسی سلسلے کا جائزہ لیتے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ ایک جانب تو موثر قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ٹی ڈی پیز اور آئی ڈی پیز کی آبادکاری اور فاٹا اصلاحات کو قانونی اور آئینی شکل دے کر اس مسئلے کا مستقل بنیادوں پر حل نکالا جا سکتا ہے۔ یہ امر کسی حد تک خوش آئند ہے کہ گذشتہ کچھ دنوں میں اس ضمن میں خاصی سنجیدگی دکھائی جا رہی ہے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کی اہم ترین دستاویز ہے۔ اس پر اگر پوری طرح عمل کیا جاتا تو دہشتگردی و انتہا پسندی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ اسی ضمن میں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’نیشنل ایکشن پلان : ضروریات اور رکاوٹیں ‘‘ کے عنوان سے ایک مباحثے کا انعقاد کیا گیا۔جس میں ماہرین نے اس معاملے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے رائے ظاہر کی کہ چونکہ فرقہ واریت اور دہشتگردی پاکستان کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں لہذا وزیر اعظم کو ’’نیکٹا‘‘ سے متعلقہ تمام معاملات کو زیادہ موثر ڈھنگ سے خود دیکھنا چاہیے ۔ اپری کے سربراہ امبیسڈر (ر) عبدالباسط نے کہا کہ ان رکاوٹوں کا جائزہ لینا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جن کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان پر اس طرح عمل نہ پایا جس کا حالات تقاضا کرتے ہیں کیونکہ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی میں ایک بلیو پرنٹ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک قومی سلامتی کے تحفظ اور دہشتگردوں کے خلاف، ایک مربوط پالیسی کا نہ ہونا ہے۔
اس پینل ڈسکشن میں شامل ماہرین نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو اسکی صحیح رُو کے مطابق نافذ کرنے کے لئے سویلین لیڈر شپ کی کمٹمنٹ بھی انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں جب تک قبائلی علاقہ جات کو ’’علاقہ غیر‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا رہے گا تو حقیقی ترقی و فلاح کیسے ممکن ہو پائے گی؟ گڈ گورننس کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئے خلا سے ملک دشمن قوتوں کو پاؤں پھیلانے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ سالہاسال بعد ایسی دستاویز میسر آئی جس پر تمام قیادت کا اتفاق تھا مگر بوجوہ تاحال منطقی نتائج حاصل نہیں ہو سکے ۔ اس کی رکاوٹوں میں سے ایک خاطر خواہ فنڈز کی کمی بھی ہے لہذا صوبوں میں قائم اینٹی ٹیرارسٹ ڈیپارٹمنٹس کو مضبوط کیا جائے۔اسی کے ساتھ قبائلی علاقہ جات اور افغان مہاجرین کا مسئلہ فوری حل کا متقاضی ہے۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ زمینی حقائق اس ا مر کے متقاضی ہیں کہ قوم کے سبھی حلقے تدبر ،معاملہ فہمی اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کو اس کی صحیح رُو اور سپرٹ کے مطابق نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
گیارہ مئی کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)