Newspaper Article 06/10/2015
نیپال میں بھارتی سفیر ’’ رنجیت رائے ‘‘ نے دو اکتوبر کو کھٹمنڈو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیپال میں بھارت مخالف جذبات جس تیزی سے فروغ پا رہے ہیں ، اس کے نتائج نیپال کے حق میں بہتر نہیں ہوں گے ۔ موصوف نے اس امر پر بھی غصے اور تشویش کا اظہار کیا کہ نیپال میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے آئے روز مختلف طلباء تنظیمیں اور نیپالی سوسائٹی کے دوسرے حلقے احتجاجی جلسے جلوس کر رہے ہیں اور بھارت کے خلاف سخت زبان استعمال کی جا رہی ہے جو بہتر نہیں ۔
دوسری جانب تین اکتوبر کو نیپال کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نیپالی کانگرس ، کیمونسٹ پارٹی آف نیپال اور یونیفائڈ کیمونسٹ پارٹی آف نیپال مائسٹ نے اپنے تمام باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر ددہلی سرکار نے نیپال کے نئے آئین اور دیگر معاملات کے حوالے سے مداخلت بند نہ کی تو اس کے نتائج آگے چل کر بھارت کو بھگتنا ہوں گے ۔
یاد رہے کہ نیپال کی 601 رکنی آئین ساز اسمبلی میں ان تینوں پارٹیوں کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہے اور ماضی میں نیپالی کانگرس کو بھارت کے قریب سمجھا جاتا رہا ہے مگر اس کے باوجود حالیہ دنوں میں دہلی سرکار کی جارحانہ روش کے نتیجے میں ان سب نے کھل کر دہلی سرکار کی مخالفت کی ہے اور ایک نیپالی سفارت کار کے بقول ’’ نیپال میں بھارت مخالف جذبات اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ انہیں نارمل ہونے کے لئے شاید کئی عشرے درکار ہوں گے ‘‘ ۔
نیپال کے دو سابق وزرائے اعظم ’’ شیر بہادر دیوبا ‘‘ ( نیپالی کانگرس ) اور ’’ مادھو کمار نیپال ‘‘ ( سی پی این ۔یو ایم ایل ) کے علاوہ چند روز بعد وزیر اعظم بننے والے ’’ یو ایم ایل ‘‘ کے ’’ کھڑگا پرشاد اولی ‘‘نے بھارت سرکار کی اقتصادی ناکہ بندی کی مذمت کی ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار نبھائے ۔ اس کے ساتھ تین اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نیپال کے نائب وزیر اعظم ’’ پرکاش مان سنگھ ‘‘ نے بھارت پر تنقید کرتے کہا ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے خشکی سے گھرے نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی ایشیاء اور پٹرول ڈیزل وغیرہ کی شدید قلت کے سبب پونے تین کروڑ نیپالی عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں اور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت بڑے انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے ۔
سفارتی اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت صرف پاکستان اور نیپال کے اندر مداخلت اور دہشتگردی کا مرتکب ہی نہیں ہو رہا بلکہ خود اپنے ملک کے اندر بھی اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے خلاف بد ترین دہشتگردی کر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں اس کے مظالم میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ 28 ستمبر کو دہلی سے محض چند کلومیٹر کی دوری پر دادری میں جس طرح اخلاق نامی ضعیف شخص کو صرف اس وجہ سے بد ترین تشدد کے ذریعے مار دیا گیا کہ اس پر گائے کا گوشت کھانے کا جھوٹا الزام تھا ۔
دوسری جانب دو اکتوبر کو اتر پردیش کے ہمیر پور میں 90 سال کے اچھوت ہندو ’’ کھیما اہیر ‘‘ کو زندہ جلا دیا گیا کیونکہ وہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے مندر میں داخل ہو کر پوجا پاٹ کے لئے اپنی بیوی اور بھائی کے ساتھ گیا تھا ۔ مندر میں موجود ’’ بی جے پی ‘‘ کے سنجے تیواڑی نام کے ملزم نے 90 سالہ اس ضعیف شخص کو کلہاڑی کے وار سے پہلے ٹکڑے ٹکڑے کیا اس کے بعد اس بد نصیب بوڑھے کو مٹی کا تیل ڈال کر زندہ جلا دیا گیا ۔
ایسی دہشتگردی کا تصور غالباً کوئی نارمل انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا ۔ ایسے میں اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی قوتوں کو بھارت کی اس بے لگام روش پر قابو پانا کے لئے آگے آنا ہو گا ورنہ یہ سلسلہ جانے کہاں پر اختتام پذیر ہو؟ ۔
دوسری جانب تین اکتوبر کو نیپال کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نیپالی کانگرس ، کیمونسٹ پارٹی آف نیپال اور یونیفائڈ کیمونسٹ پارٹی آف نیپال مائسٹ نے اپنے تمام باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر ددہلی سرکار نے نیپال کے نئے آئین اور دیگر معاملات کے حوالے سے مداخلت بند نہ کی تو اس کے نتائج آگے چل کر بھارت کو بھگتنا ہوں گے ۔
یاد رہے کہ نیپال کی 601 رکنی آئین ساز اسمبلی میں ان تینوں پارٹیوں کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہے اور ماضی میں نیپالی کانگرس کو بھارت کے قریب سمجھا جاتا رہا ہے مگر اس کے باوجود حالیہ دنوں میں دہلی سرکار کی جارحانہ روش کے نتیجے میں ان سب نے کھل کر دہلی سرکار کی مخالفت کی ہے اور ایک نیپالی سفارت کار کے بقول ’’ نیپال میں بھارت مخالف جذبات اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ انہیں نارمل ہونے کے لئے شاید کئی عشرے درکار ہوں گے ‘‘ ۔
نیپال کے دو سابق وزرائے اعظم ’’ شیر بہادر دیوبا ‘‘ ( نیپالی کانگرس ) اور ’’ مادھو کمار نیپال ‘‘ ( سی پی این ۔یو ایم ایل ) کے علاوہ چند روز بعد وزیر اعظم بننے والے ’’ یو ایم ایل ‘‘ کے ’’ کھڑگا پرشاد اولی ‘‘نے بھارت سرکار کی اقتصادی ناکہ بندی کی مذمت کی ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار نبھائے ۔ اس کے ساتھ تین اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نیپال کے نائب وزیر اعظم ’’ پرکاش مان سنگھ ‘‘ نے بھارت پر تنقید کرتے کہا ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے خشکی سے گھرے نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی ایشیاء اور پٹرول ڈیزل وغیرہ کی شدید قلت کے سبب پونے تین کروڑ نیپالی عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں اور خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت بڑے انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے ۔
سفارتی اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت صرف پاکستان اور نیپال کے اندر مداخلت اور دہشتگردی کا مرتکب ہی نہیں ہو رہا بلکہ خود اپنے ملک کے اندر بھی اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے خلاف بد ترین دہشتگردی کر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں اس کے مظالم میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ 28 ستمبر کو دہلی سے محض چند کلومیٹر کی دوری پر دادری میں جس طرح اخلاق نامی ضعیف شخص کو صرف اس وجہ سے بد ترین تشدد کے ذریعے مار دیا گیا کہ اس پر گائے کا گوشت کھانے کا جھوٹا الزام تھا ۔
دوسری جانب دو اکتوبر کو اتر پردیش کے ہمیر پور میں 90 سال کے اچھوت ہندو ’’ کھیما اہیر ‘‘ کو زندہ جلا دیا گیا کیونکہ وہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے مندر میں داخل ہو کر پوجا پاٹ کے لئے اپنی بیوی اور بھائی کے ساتھ گیا تھا ۔ مندر میں موجود ’’ بی جے پی ‘‘ کے سنجے تیواڑی نام کے ملزم نے 90 سالہ اس ضعیف شخص کو کلہاڑی کے وار سے پہلے ٹکڑے ٹکڑے کیا اس کے بعد اس بد نصیب بوڑھے کو مٹی کا تیل ڈال کر زندہ جلا دیا گیا ۔
ایسی دہشتگردی کا تصور غالباً کوئی نارمل انسانی معاشرہ نہیں کر سکتا ۔ ایسے میں اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی قوتوں کو بھارت کی اس بے لگام روش پر قابو پانا کے لئے آگے آنا ہو گا ورنہ یہ سلسلہ جانے کہاں پر اختتام پذیر ہو؟ ۔
پانچ اکتوبر کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )