Newspaper Article 18/01/2015
یہ ایک کھلا راز ہے کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں پاک افغان تعلقات بڑی حد تک کشیدگی کا شکا ر رہے جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کرزئی اپنے پورے دورِ اقتدار میں اپنے بھارتی آقاؤں کے اشاروں پر ناچتے رہے ۔ مگر ستمبر 2014 میں جب نئے منتخب صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے اقتدار سنبھالا ، تب سے دونوں ممالک بڑی حد تک اچھے تعلقات قائم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔
اس کی ایک مثال تو چند ماہ پہلے صدر اشرف غنی کا دورہ پاکستان ہے جس دوران وہ خصوصی طور پر ’’ جی ایچ کیو ‘‘ بھی تشریف لے گئے اور افواجِ پاکستان کی قیادت سے بھی سنجیدہ مذاکرات کیے ۔ اس کے علاوہ 16 دسمبر کو جب سانحہ پشاور پیش آیا تو اس کے اگلے ہی روز پاک فوج کے سربراہ ’’ جنرل راحیل شریف ‘‘ تمام پروٹوکول بالائے طاق رکھ کر افغانستان گئے اور وہاں صدر اشرف غنی سے ملاقات میں پاکستان میں کاروائیاں کرنے والے ان دہشتگردوں کی بابت ٹھوس شواہد مہیا کیے جو افغانستان کے مختلف علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کابل حکومت سے کیا گیا ۔
اس کے چند روز بعد افغان آرمی چیف جنرل ’’ شیر محمد ‘‘ اور ایساف کمانڈر نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور پاک عسکری قیادت سے ملاقات کی ۔ اسی عمل کے تسلسل میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ’’ رضوان اختر ‘‘ کابل گئے۔ اس کے بعد جب امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری پاکستان آئے( 12 تا 13 جنوری) تو ان سے بھی پاکستان کی عسکری اور سیاسی لیڈر شپ کی جانب سے ٹھوس الفاظ میں مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغانستان میں چھپے ہوئے دہشتگردوں کے خلاف موثر کاروائی کریں ۔ باخبر ذرائع کے مطابق سانحہ پشاور میں ملوث 5 دہشتگردوں کو افغانستان میں گرفتار کر لیا گیا ہے علاوہ ازیں مولوی فضل اللہ کو مطلوب ترین عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک افغان تعلقات نسبتاً بہتری کی جانب گامزن ہیں اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے روابط میں بھی 2 برس بیشتر والی تلخی نہیں رہی ۔ یاد رہے کہ 2011 ، 2012 میں ریمنڈ ڈیوس ‘‘ کے معاملے کے علاوہ ’’ اسامہ بن لادن ‘‘ کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے جیسی وجوہات کی بنا پر تلخی کا عنصر بہت غالب تھا جس میں اب قدرے کمی آ رہی ہے ۔
اس صورتحال کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ 14 اگست کو پاکستان نے جب برطانوی اقتدار سے آزادی حاصل کر کے ایک نئی اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے اپنے وجود کا آغاز کیا تو روزِ اول سے ہی پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ دنیا کے سبھی ملکوں خصوصاً ہمسایوں سے عدم مداخلت اور برابری کے اصولوں کی بنیاد پر تعلقات استوار کیے جائیں ۔ اور اپنے اس مقصد میں پاکستان کو بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی مگر بد قسمتی سے بھارت کی شکل میں اسے ایک ایسا ہمسایہ میسر آیا جس نے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کے جواب میں ہمیشہ توسیع پسندی کی روش اپنائے رکھی اور کشمیر دکن حیدآباد ، جونا گڑھ ، مناور کے علاوہ جموں کشمیر پر ناجائز تسلط جما لیا اور تا حال یہ غاصبانہ قبضہ جاری ہے ۔
دوسری طرف بھارتی حکمرانوں نے کرزئی کے دور میں افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں بڑی حد تک اضافہ کر لیا اور جلال آباد ، قندھار ، ہرات اور مزار شریف میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشتگردی کو فروغ دینے کی قابلِ مذمت روز میں بہت شدت پیدا کر دی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے مخلتف حصوں خصوصاً بلوچستان میں دہشتگردی کو بہت فروغ ملا ۔ اب جب کہ افغانستان میں سیاسی قیادت تبدیل ہو چکی ہے تو امید ہے کہ پاکستان میں مداخلت میں بڑی حد تک کمی آئے گی اگرچہ اس تلخ حقیقت سے مکمل چشم پوشی بھی نہیں کی جا سکتی کہ افغان نیشنل آرمی خصوصاً افغان انٹیلی جنس کے اداروں میں بھارتی اثر و رسوخ بہت سرایت کر چکا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ عناصر بھارتی شہ پر اپنی کاروائیوں کو جاری رکھیں گے ۔
اس کے باوجود توقع کی جانی چاہیے کہ امریکہ اور اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے عمل کو ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھائیں گے ۔
اٹھارہ جنوری کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنفف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں ہو گا)