Skip to content Skip to footer

پاک افغان تعلقات مین بہتری ؟

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

یہ ایک کھلا راز ہے کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں پاک افغان تعلقات بڑی حد تک کشیدگی کا شکا ر رہے جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کرزئی اپنے پورے دورِ اقتدار میں اپنے بھارتی آقاؤں کے اشاروں پر paناچتے رہے ۔ مگر ستمبر 2014 میں جب نئے منتخب صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے اقتدار سنبھالا ، تب سے دونوں ممالک بڑی حد تک اچھے تعلقات قائم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔ 
اس کی ایک مثال تو چند ماہ پہلے صدر اشرف غنی کا دورہ پاکستان ہے جس دوران وہ خصوصی طور پر ’’ جی ایچ کیو ‘‘ بھی تشریف لے گئے اور افواجِ پاکستان کی قیادت سے بھی سنجیدہ مذاکرات کیے ۔ اس کے علاوہ 16 دسمبر کو جب سانحہ پشاور پیش آیا تو اس کے اگلے ہی روز پاک فوج کے سربراہ ’’ جنرل راحیل شریف ‘‘ تمام پروٹوکول بالائے طاق رکھ کر افغانستان گئے اور وہاں صدر اشرف غنی سے ملاقات میں پاکستان میں کاروائیاں کرنے والے ان دہشتگردوں کی بابت ٹھوس شواہد مہیا کیے جو افغانستان کے مختلف علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کابل حکومت سے کیا گیا ۔ 
اس کے چند روز بعد افغان آرمی چیف جنرل ’’ شیر محمد ‘‘ اور ایساف کمانڈر نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور پاک عسکری قیادت سے ملاقات کی ۔ اسی عمل کے تسلسل میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ’’ رضوان اختر ‘‘ کابل گئے۔ اس کے بعد جب امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری پاکستان آئے( 12 تا 13 جنوری) تو ان سے بھی پاکستان کی عسکری اور سیاسی لیڈر شپ کی جانب سے ٹھوس الفاظ میں مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغانستان میں چھپے ہوئے دہشتگردوں کے خلاف موثر کاروائی کریں ۔ باخبر ذرائع کے مطابق سانحہ پشاور میں ملوث 5 دہشتگردوں کو افغانستان میں گرفتار کر لیا گیا ہے علاوہ ازیں مولوی فضل اللہ کو مطلوب ترین عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے ۔ 
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک افغان تعلقات نسبتاً بہتری کی جانب گامزن ہیں اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے روابط میں بھی 2 برس بیشتر والی تلخی نہیں رہی ۔pa9 یاد رہے کہ 2011 ، 2012 میں ریمنڈ ڈیوس ‘‘ کے معاملے کے علاوہ ’’ اسامہ بن لادن ‘‘ کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے جیسی وجوہات کی بنا پر تلخی کا عنصر بہت غالب تھا جس میں اب قدرے کمی آ رہی ہے ۔ 
اس صورتحال کا مجموعی جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ 14 اگست کو پاکستان نے جب برطانوی اقتدار سے آزادی حاصل کر کے ایک نئی اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے اپنے وجود کا آغاز کیا تو روزِ اول سے ہی پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ دنیا کے سبھی ملکوں خصوصاً ہمسایوں سے عدم مداخلت اور برابری کے اصولوں کی بنیاد پر تعلقات استوار کیے جائیں ۔ اور اپنے اس مقصد میں پاکستان کو بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی مگر بد قسمتی سے بھارت کی شکل میں اسے ایک ایسا ہمسایہ میسر آیا جس نے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کے جواب میں ہمیشہ توسیع پسندی کی روش اپنائے رکھی اور کشمیر دکن حیدآباد ، جونا گڑھ ، مناور کے علاوہ جموں کشمیر پر ناجائز تسلط جما لیا اور تا حال یہ غاصبانہ قبضہ جاری ہے ۔ 
دوسری طرف بھارتی حکمرانوں نے کرزئی کے دور میں افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں بڑی حد تک اضافہ کر لیا اور جلال آباد ، قندھار ، ہرات اور مزار شریف میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشتگردیkerry کو فروغ دینے کی قابلِ مذمت روز میں بہت شدت پیدا کر دی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے مخلتف حصوں خصوصاً بلوچستان میں دہشتگردی کو بہت فروغ ملا ۔ اب جب کہ افغانستان میں سیاسی قیادت تبدیل ہو چکی ہے تو امید ہے کہ پاکستان میں مداخلت میں بڑی حد تک کمی آئے گی اگرچہ اس تلخ حقیقت سے مکمل چشم پوشی بھی نہیں کی جا سکتی کہ افغان نیشنل آرمی خصوصاً افغان انٹیلی جنس کے اداروں میں بھارتی اثر و رسوخ بہت سرایت کر چکا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ عناصر بھارتی شہ پر اپنی کاروائیوں کو جاری رکھیں گے ۔
اس کے باوجود توقع کی جانی چاہیے کہ امریکہ اور اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے عمل کو ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھائیں گے ۔ 

اٹھارہ جنوری کو روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
(مندرجہ بالا تحریر مصنفف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں ہو گا)

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements