Newspaper Article 07/05/2016
شام کے بحران میں شدت آنے کے بعد سے فرانس کے میڈیا میں افغانستان کی بابت بہت کم ذکر کیا جا رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اب افغانستان میں مغرب خصوصاً یورپ اگلے محاذ پر موجود نہیں ۔ دوسری وجہ شام کے بحران میں آئی سنگینی ہے ۔ مگر افغان مذکرا تی عمل پر توجہ دینا بہت ضروری ہے کیونکہ بہت مشکلات بھری کوششوں کے بعد اس عمل کا آغاز ہوا ۔ اس ضمن میں گیارہ جنوری 2016 کو اسلام آباد میں اجلاس منعقد ہوا ۔ اس کے بعد اٹھارہ جنوری کو کابل میں مذاکرات ہوئے ۔ اگر چہ ان اجلاسوں میں امریکہ بھی موجود تھا مگر باقی تینوں شرکاء یعنی افغانستان ، پاکستان اور چین کا تعلق متعلقہ خطے ہی سے تھا ۔ 2015 میں اس بابت پاکستان اور چین زیادہ سر گرم رہے اور صاف ظاہر ہے کہ اس معاملے میں بیجنگ نے اسلام آباد کی بھر پور حوصلہ افزائی کی ۔ اسی وجہ سے جولائی 2015 کے اجلاس میں اہم طالبان حلقے مذکراتی میز پر اکٹھے ہوئے مگر انتیس جولائی 2015 کو ملا عمر کی موت کی خبر کی تصدیق نے ان مذکرات کو پٹری سے اتار دیا ۔
سالِ رواں کے آغاز میں امن مذاکرات کے اس عمل کو دوبارہ بحال کیا گیا ۔ افغانستان اور عالمی برداری کے لئے یہ یقیناًاچھی خبر ہے اور یہ پیش رفت حقیقت میں پاکستان اور چین کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہو پائی ۔ منفی سوچ کے حامل طبقات نے البتہ ان مذکرات کی دوبارہ ناکامی کی پیشین گوئی کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگائی کیونکہ بد ترین کا اظہار غالباً سب سے آسان کام ہے۔ حالانکہ امن مذکرات کے عمل کا آغاز خود اپنے آپ میں ایک بڑی پیش رفت ہوتی ہے ۔ بھلے ہی وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پائے ۔
2015 کے موسمِ گرما میں اس عمل کے پٹری سے اترنے کے بعد چین اور پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ رابطوں کو بحال رکھا جو ایک امید افزا امر ہے ۔ مندرجہ بالا تحریر میں چین کی جانب سے انتہائی مثبت روش کا ذکر ہو چکا ہے لہذا اب ہمیں پاکستان کے تذکرے پر اپنا دھیان مرکوز کرنا ہو گا ۔ پاکستان جیسی علاقائی قوت افغانستان کے لئے ہر صورت میں بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے مابین چھبیس سو چالیس کلو میٹر سے زائد مشترکہ سرحد ہے جس پر مکمل کنٹرول پانا بہت مشکل ہے ۔ علاوہ ازیں کشیدہ باہمی تعلقات کی تاریخ اور دونوں جانب آباد پشتون آبادی کے مابین انسانی رشتے ، اقتصادی روابط اور پاکستان میں رہ رہے پچیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ایسے عوامل ہیں جن کی موجودگی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کو الگ کر کے افغانستان میں امن کی بحالی ممکن ہی نہیں ۔
لہذا پاکستان کی جانب سے امن عمل میں شامل رہنے کی خواہش ایک فطری عمل ہے ۔ ہم ( یورپ ) دیکھ چکے ہیں کہ جب سے پاکستان میں جمہوری عمل کی واپسی ہوئی ہے ، تب سے اس کی افغان پالیسی میں آہستہ آہستہ مگر تسلسل سے مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ اس پیش رفت کے محرکات کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے اس ہمسائے سے تعلقات میں استحکام کا خواہش مند ہے اور افغانستان کے ان مسائل کو حل کرنے کی خواہش بھی موجود نظر آتی ہے جو بیرونی دنیا کی شمولیت کی وجہ سے پیدا ہوئے اور اس نقطے پر پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کی سوچ میں مکمل ہم آہنگی نظر آتی ہے ۔ کیونکہ پاک فوج ان دہشتگرد گروہوں کے خاتمے کی لڑائی میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے جن کے ٹھکانے قبائلی علاقوں میں ہیں ۔
اس صورتحال کی بدولت عسکری قیادت کی اکثریت کی سوچ میں ایک نئی جہت نے جنم لیا ہے ۔ یہ نئی سوچ عالمی سوچ سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہے کہ جب تلک افغانستان میں پائیدار داخلی امن کا قیام عمل میں نہیں�آتا ، تب تک پاک افغان سرحد سلگتی ہی رہے گے اور پاکستان کے سرحدی علاقے بھی عدم استحکام کے خطرے سے دوچار رہیں گے بلکہ پورے ملک پر دہشتگردی کے خطرات منڈلاتے رہیں گے ۔
امن مذاکراتی عمل کی حمایت سے پاکستا ن صدر اشرف غنی پر بھی واضح کرنا چاہتا ہے کہ انھوں نے امن کی بحالی کے لئے اپنے ہمسائے پاکستان کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھا کر درست فیصلہ کیا ہے ۔ اگرچہ اسلام آباد اور کابل کے مابین طویل عرصہ سے جاری عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنا آسان کام نہیں مگر امن عمل کی لگاتار حمایت سے پاکستان کی قیادت ظاہر کر رہی ہے کہ وہ دیرینہ کشیدگیوں کے خاتمے میں سنجیدہ ہے ۔ بلاشبہ اس طرز عمل سے پاکستان اپنے قومی مفادات کا بھی دفاع کر رہا ہے کیونکہ اسلام آباد کی خواہش ہے کہ افغانستان ماضی مانند پاکستان کے مخالف کیمپ میں نہ رہے ۔ کوئی بھی با شعور فرد پاکستانی ریاست کی اس سوچ کی مخالفت نہیں کر سکتا کہ وہ دنیا کے ہر ملک کی طرح اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی سعی کر رہی ہے اور نواز شریف کی قیادت میں ایک اعتدال پسند اور مثبت سوچ کے ساتھ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے ۔
پاکستان واضح طور پر دونوں ممالک کے مابین روایتی سوچ سے ہٹ کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ کیونکہ ماضی میں ہر برائی کے لئے دونوں ملک ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آتے تھے اور اسی وجہ سے سلامتی کے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ۔ مگر اس کے باوجود اسلام آباد کا موقف تا حال یہی ہے کہ افغان سر زمین پاکستان کے خلاف ابھی بھی مخالفانہ سر گر میوں کے لئے استعمال ہو رہی ہے ۔ اسی وجہ سے پاک وزیر اعظم کی رائے ہے کہ کہ اگرچہ افغان حکومت ان دہشتگردوں کو کچلنے میں مخلص ہے جو دونوں ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ مگر تاحال افغانستان کے کچھ سیاسی اور عسکری حلقے پاکستان کے خلاف اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت
الزام تراشی میں مصروف ہیں کہ وہ افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے ۔ پاک وزیر اعظم نے چوبیس جنوری کو ان خیالات کا اظہار کیا ۔
افغان وزارتِ دفاع نے اس پاکستانی موقف پر تا حال خاموشی اختیار کر رکھی ہے مگر افغان اربابِ اختیار کو اس امر کا سنجیدہ نوٹس لینا ہو گا ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان امن عمل سے محض اس لئے منسلک نہیں کہ وہ محض افغانستان کے استحکام کا خواہاں ہے بلکہ حقیقت میں بجا طور پر اپنے ملک ، ریاست اور معاشرے کا استحکام بھی چاہتا ہے ۔ ایسے میں اپنی سلامتی کے حوالے سے اسلام آباد کے خدشات کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے ۔
حرفِ آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس بابت تقریباً عالمی اتفاق رائے ہے کہ پاکستان غالباً وہ واحد ملک ہے جو اپنے رابطوں کی بنا پر باغی طالبان کمانڈروں کو مذاکراتی میز پر لانے کی اہلیت رکھتا ہے مگر اس تناظر میں بعض نا پختہ ماہرین یہ رائے ظاہر کرتے نظر آتے ہیں کہ طالبان کو پاک خفیہ ادارے کنٹرول کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک عام سوچ ہے اور ذہنیت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے بہت سے نام نہاد دانشور حقائق سے چشم پوشی کر کے ’’ جیمز بانڈ ‘‘ کی فلموں کی مانند خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں کیونکہ شاید وہ نہیں جانتے کہ سارے طالبان رہنما پاکستان کے حامی نہیں ۔ اور ان غیر ریاستی عناصر سے روابط یا مذاکرات یہ ظاہر نہیں کرتے کہ ان پر کنٹرول رکھنا مقصد ہے اور یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ زیادہ تر طالبان فوجی اور معاشی دونوں اعتبار سے خود مختار اور آزاد سوچ کے حامل ہیں لہذا پاکستان اپنی تمام تر کوشش کے باوجود انھیں محض مذاکرات کی میز تک لانے کی حد تک معاونت کر سکتا ہے مگر فوری اور کامیاب مذاکرات کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتا ۔ افغانستان میں امن و استحکام کی پائیداری پوری طرح کابل کی اپنی ذمہ داری ہے یا پھر عالمی برداری خصوصاً یورپ کا فریضہ ہے کہ وہ اپنا پورا تعاون امن عمل کو فراہم کرے جو متعلقہ علاقائی قوتوں اور خود افغانستان کی زیر نگرانی کامیابی سے ہم کنار ہو تا کہ اس خطے میں پائیدار امن و سلامتی کا خواب اپنی عملی تعبیر پا سکے ۔
(تحریر : ڈیڈیئر شودت ) فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں ۔ وہ افغانستان ، پاکستان ، ایران اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’ سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز ‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور ‘‘ ، ’’ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز ‘‘ ، ’’ فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز ‘‘ اور ’’ یالے یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’ اپری ‘‘ ( اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) سے ’’ نان ریزیڈنٹ سکالر ‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں ۔ ( ترجمہ : اصغر علی شاد )
سالِ رواں کے آغاز میں امن مذاکرات کے اس عمل کو دوبارہ بحال کیا گیا ۔ افغانستان اور عالمی برداری کے لئے یہ یقیناًاچھی خبر ہے اور یہ پیش رفت حقیقت میں پاکستان اور چین کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہو پائی ۔ منفی سوچ کے حامل طبقات نے البتہ ان مذکرات کی دوبارہ ناکامی کی پیشین گوئی کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگائی کیونکہ بد ترین کا اظہار غالباً سب سے آسان کام ہے۔ حالانکہ امن مذکرات کے عمل کا آغاز خود اپنے آپ میں ایک بڑی پیش رفت ہوتی ہے ۔ بھلے ہی وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پائے ۔
2015 کے موسمِ گرما میں اس عمل کے پٹری سے اترنے کے بعد چین اور پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ رابطوں کو بحال رکھا جو ایک امید افزا امر ہے ۔ مندرجہ بالا تحریر میں چین کی جانب سے انتہائی مثبت روش کا ذکر ہو چکا ہے لہذا اب ہمیں پاکستان کے تذکرے پر اپنا دھیان مرکوز کرنا ہو گا ۔ پاکستان جیسی علاقائی قوت افغانستان کے لئے ہر صورت میں بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے مابین چھبیس سو چالیس کلو میٹر سے زائد مشترکہ سرحد ہے جس پر مکمل کنٹرول پانا بہت مشکل ہے ۔ علاوہ ازیں کشیدہ باہمی تعلقات کی تاریخ اور دونوں جانب آباد پشتون آبادی کے مابین انسانی رشتے ، اقتصادی روابط اور پاکستان میں رہ رہے پچیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ایسے عوامل ہیں جن کی موجودگی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کو الگ کر کے افغانستان میں امن کی بحالی ممکن ہی نہیں ۔
لہذا پاکستان کی جانب سے امن عمل میں شامل رہنے کی خواہش ایک فطری عمل ہے ۔ ہم ( یورپ ) دیکھ چکے ہیں کہ جب سے پاکستان میں جمہوری عمل کی واپسی ہوئی ہے ، تب سے اس کی افغان پالیسی میں آہستہ آہستہ مگر تسلسل سے مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ اس پیش رفت کے محرکات کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے اس ہمسائے سے تعلقات میں استحکام کا خواہش مند ہے اور افغانستان کے ان مسائل کو حل کرنے کی خواہش بھی موجود نظر آتی ہے جو بیرونی دنیا کی شمولیت کی وجہ سے پیدا ہوئے اور اس نقطے پر پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کی سوچ میں مکمل ہم آہنگی نظر آتی ہے ۔ کیونکہ پاک فوج ان دہشتگرد گروہوں کے خاتمے کی لڑائی میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے جن کے ٹھکانے قبائلی علاقوں میں ہیں ۔
اس صورتحال کی بدولت عسکری قیادت کی اکثریت کی سوچ میں ایک نئی جہت نے جنم لیا ہے ۔ یہ نئی سوچ عالمی سوچ سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہے کہ جب تلک افغانستان میں پائیدار داخلی امن کا قیام عمل میں نہیں�آتا ، تب تک پاک افغان سرحد سلگتی ہی رہے گے اور پاکستان کے سرحدی علاقے بھی عدم استحکام کے خطرے سے دوچار رہیں گے بلکہ پورے ملک پر دہشتگردی کے خطرات منڈلاتے رہیں گے ۔
امن مذاکراتی عمل کی حمایت سے پاکستا ن صدر اشرف غنی پر بھی واضح کرنا چاہتا ہے کہ انھوں نے امن کی بحالی کے لئے اپنے ہمسائے پاکستان کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھا کر درست فیصلہ کیا ہے ۔ اگرچہ اسلام آباد اور کابل کے مابین طویل عرصہ سے جاری عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنا آسان کام نہیں مگر امن عمل کی لگاتار حمایت سے پاکستان کی قیادت ظاہر کر رہی ہے کہ وہ دیرینہ کشیدگیوں کے خاتمے میں سنجیدہ ہے ۔ بلاشبہ اس طرز عمل سے پاکستان اپنے قومی مفادات کا بھی دفاع کر رہا ہے کیونکہ اسلام آباد کی خواہش ہے کہ افغانستان ماضی مانند پاکستان کے مخالف کیمپ میں نہ رہے ۔ کوئی بھی با شعور فرد پاکستانی ریاست کی اس سوچ کی مخالفت نہیں کر سکتا کہ وہ دنیا کے ہر ملک کی طرح اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی سعی کر رہی ہے اور نواز شریف کی قیادت میں ایک اعتدال پسند اور مثبت سوچ کے ساتھ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے ۔
پاکستان واضح طور پر دونوں ممالک کے مابین روایتی سوچ سے ہٹ کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ کیونکہ ماضی میں ہر برائی کے لئے دونوں ملک ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آتے تھے اور اسی وجہ سے سلامتی کے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ۔ مگر اس کے باوجود اسلام آباد کا موقف تا حال یہی ہے کہ افغان سر زمین پاکستان کے خلاف ابھی بھی مخالفانہ سر گر میوں کے لئے استعمال ہو رہی ہے ۔ اسی وجہ سے پاک وزیر اعظم کی رائے ہے کہ کہ اگرچہ افغان حکومت ان دہشتگردوں کو کچلنے میں مخلص ہے جو دونوں ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ مگر تاحال افغانستان کے کچھ سیاسی اور عسکری حلقے پاکستان کے خلاف اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت
الزام تراشی میں مصروف ہیں کہ وہ افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے ۔ پاک وزیر اعظم نے چوبیس جنوری کو ان خیالات کا اظہار کیا ۔
افغان وزارتِ دفاع نے اس پاکستانی موقف پر تا حال خاموشی اختیار کر رکھی ہے مگر افغان اربابِ اختیار کو اس امر کا سنجیدہ نوٹس لینا ہو گا ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان امن عمل سے محض اس لئے منسلک نہیں کہ وہ محض افغانستان کے استحکام کا خواہاں ہے بلکہ حقیقت میں بجا طور پر اپنے ملک ، ریاست اور معاشرے کا استحکام بھی چاہتا ہے ۔ ایسے میں اپنی سلامتی کے حوالے سے اسلام آباد کے خدشات کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے ۔
حرفِ آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس بابت تقریباً عالمی اتفاق رائے ہے کہ پاکستان غالباً وہ واحد ملک ہے جو اپنے رابطوں کی بنا پر باغی طالبان کمانڈروں کو مذاکراتی میز پر لانے کی اہلیت رکھتا ہے مگر اس تناظر میں بعض نا پختہ ماہرین یہ رائے ظاہر کرتے نظر آتے ہیں کہ طالبان کو پاک خفیہ ادارے کنٹرول کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک عام سوچ ہے اور ذہنیت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے بہت سے نام نہاد دانشور حقائق سے چشم پوشی کر کے ’’ جیمز بانڈ ‘‘ کی فلموں کی مانند خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں کیونکہ شاید وہ نہیں جانتے کہ سارے طالبان رہنما پاکستان کے حامی نہیں ۔ اور ان غیر ریاستی عناصر سے روابط یا مذاکرات یہ ظاہر نہیں کرتے کہ ان پر کنٹرول رکھنا مقصد ہے اور یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ زیادہ تر طالبان فوجی اور معاشی دونوں اعتبار سے خود مختار اور آزاد سوچ کے حامل ہیں لہذا پاکستان اپنی تمام تر کوشش کے باوجود انھیں محض مذاکرات کی میز تک لانے کی حد تک معاونت کر سکتا ہے مگر فوری اور کامیاب مذاکرات کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتا ۔ افغانستان میں امن و استحکام کی پائیداری پوری طرح کابل کی اپنی ذمہ داری ہے یا پھر عالمی برداری خصوصاً یورپ کا فریضہ ہے کہ وہ اپنا پورا تعاون امن عمل کو فراہم کرے جو متعلقہ علاقائی قوتوں اور خود افغانستان کی زیر نگرانی کامیابی سے ہم کنار ہو تا کہ اس خطے میں پائیدار امن و سلامتی کا خواب اپنی عملی تعبیر پا سکے ۔
(تحریر : ڈیڈیئر شودت ) فرانس کے صحافتی اور تحقیقی حلقوں میں یہ مغربی مصنف ایک معتبر نام کے حامل ہیں ۔ وہ افغانستان ، پاکستان ، ایران اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور ’’ سینٹر فار انیلے سس آف فارن افیئرز ‘‘ میں ڈائریکٹر ایڈیٹنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اوقات میں ’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ساوتھ ایشین سٹڈیز سنگا پور ‘‘ ، ’’ پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سٹڈیز ‘‘ ، ’’ فرنچ انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل ریلیشنز ‘‘ اور ’’ یالے یونیورسٹی ‘‘ میں تحقیق و تدریس کے شعبوں سے وابستہ رہے اور ’’ اپری ‘‘ ( اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ) سے ’’ نان ریزیڈنٹ سکالر ‘‘ کے طور پر وابستہ ہیں ۔ ( ترجمہ : اصغر علی شاد )
چھ مئی کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )