Skip to content Skip to footer

پاک بھارت تعلقات کا مستقبل ؟

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu
پانچ جنوری کو دنیا بھر میں یومِ ’’ حق خود ارادیت‘‘ کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ 1949 میں اسی دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے milاتفاق رائے سے یہ قرار داد منظور کی تھی کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے استصواب رائے کا موقع فراہم کیا جائے گا ۔ اس سے پہلے اگست 1948 میں بھی اسی ضمن میں ایک قرار داد منظور کی جا چکی تھی ۔ اسی تناظر میں ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ اگر عالمی برادری کی موثر قوتیں اور بھارتی حکمران تعمیری روش کا مظاہرہ کریں تو مستقبل قریب میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کا منصفانہ حل وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق نکالا جا سکتا ہے خصوصاً مودی کے دورہ لاہور کے بعد بظاہر باہمی تعلقات کی صورتحال بھی کسی حد امید افزا قرار دی جا سکتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سارے منظر نامے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیا جائے ۔
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مودی نے اپنی حلف وفاداری کی تقریب میں وزیر اعظم پاکستان کو مدعو کر کے ساری دنیا کو کسی حد تک چونکا دیا اور پاکستان کی جانب سے بھی بہت سے تحفظات کے باوجود اس پیش رفت کا مثبت جواب دیا گیا تھا مگر اس کے فوراً بعد مودی سرکار نے پچیس اگست 2014 کو طے شدہ خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کو یک طرفہ طور پر جس طرح منسوخ کیا اس سے دہلی کے عزائم بڑی حد تک واضح ہو گئے تھے ۔ اور پھر اپنے اقتدار کے ابتدائی چھ ماہ میں ’’ ایل او سی ‘‘ اور ورکنگ باؤنڈری پر اشتعال انگیز گولہ باری کو جاری رکھ کر بھارت نے صورتحال کو مزید کشیدہ کر دیا ۔ یہ ایک الگ امر ہے کہ اپنی اسی پالیسی کے نتیجے میں مودی مہاراشٹر ، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور مقبوضہ کشمیر کے صوبائی انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر شاید وہ بھول گئے تھے کہ ا نہوں نے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی محض پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر حاصل نہیں کی تھی بلکہ بھارتی عوام سے اقتصادی خوشحالی کے وعدے پر وہ کامیاب ہوئے تھے جس میں وہ کوئی پیش رفت نہ کر پائے تو دس فروری 2015 کو دہلی کی اسمبلی کے انتخابی نتائج نے ’’ بی جے پی ‘‘ سرکار کو ہلا کر رکھ دیا ۔ جب 70 میں سے 67 سیٹیں وہاں کی علاقائی جماعت ’’ عام آدمی پارٹی ‘‘ کے حصے میں آئیں مگر تب بھی مودی غالباً بھارتی عوام کے موڈ کو سمجھنے میں بڑی حد تک ناکام رہے اور انھوں نے اپنی ساری توانائی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے پر صرف کرنے کو ترجیح دی ۔
مگر جب آٹھ نومبر کو بہار اسمبلی کے انتخابی نتائج میں 243 میں سے 52 سیٹیں BJP کے حصے میں آئیں اور 178 پر علاقائی جماعتوں ’’ آر جے ڈی ‘‘ اور ’’ جے ڈی یو ‘‘ جیت گئیں تو تب شاید انھیں خطرے کا احساس ہوا اور انھیں یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ شکست کا یہی سلسلہ جاری رہا تو ’’ بی جے پی ‘‘ بھارتی داخلی سیاست میں عبرت کا نشان بن کر رہ جائے گی ۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ستائیس نومبر 2014 کو کھٹمنڈو ( نیپال ) اور دس جولائی کو اوفا میں مودی نواز شریف ملاقات ہوئیں ۔
مگر بہار کی شکست کے پس منظر میں موصوف نے تیس نومبر کو پیرس میں ہونے والی ’’کلائمیٹ چینج سمٹ‘‘ میں پاک وزیر اعظم ’’ نواز شریف ‘‘ سے خود ملاقات کی ۔ اگرچہ اس ملاقات کا دورانیہ محض 120 سیکنڈ پر مشتمل تھا مگر نتائج کے اعتبار سے یہ نہایت اہم ثابت ہوئی اور چھ دسمبر کو بنکاک میں دنوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ملے جس کے نتیجے میں نو دسمبر کو وزیر خارجہ ہند ’’ سشما سوراج ‘‘ اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیاء کانفرس میں شرکت کے لئے آئیں اور پاکستانی قیادت سے ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے مابین ’’ کمپری ہینسیو بائی لیٹرل ڈائیلاگ ‘‘ کی بحالی کی فیصلہ کیا گیا ۔
اس کے بعد پندرہ دسمبر کو بھارتی فوجی سربراہوں کی کوچی میں منعقدہ سالانہ کانفرنس جسے ’’ کمبائنڈ کمانڈر کانفرنس ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ کانفرنس پہلی بار دہلی سے باہر انڈین نیوی کے طیارہ بردار جہاز ’’ وکرم آدتیہ ‘‘ پر منعقد ہوئی تھی ۔ ساڑھے تین گھنٹے کی اس کانفرنس کے دوران مودی نے اپنے فوجی کمانڈرز سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ’’انگیجنگ پاکستان ٹو ٹرائی اینڈ ٹرن دی کورس آف ہسٹری ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ۔ ظاہری طور پر یہ ان کی روایتی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کا غماز تھی اور پھر پچیس دسمبر کو کابل سے واپسی کے بعد جس طرح لاہور پہنچے ۔ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
بھارتی داخلی سیاست کے طالب علم ہونے کے ناطے راقم کی رائے ہے کہ مودی پالیسی میں اس تبدیلی کے دو پہلو ہیں ۔ ایک داخلی جس کے مطابق تین ماہ بعد اپریل میں بھارتی صوبوں ’’ آسام ‘‘ ، ’’ مغربی بنگال ‘‘ ، ’’ کیرالہ ‘‘ ، تامل ناڈو ‘‘ اور ’’ پانڈی چری ‘‘ میں صوبائی انتخابات ہونا طے ہیں جہاں پر مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب 34.5 فیصد ، 27 فیصد ، 20 فیصد ، 7 فیصد اور ساڑھے چھ فیصد ہے ۔ مودی کو امید ہے کہ پاکستان کےmil1 ساتھ بہتر تعلقات کی صورت میں ان صوبوں کے بھارتی مسلم ووٹر وں کی بڑی تعداد نے اگر ’’ بی جے پی ‘‘ کے حق میں ووٹ نہ بھی دیا تو متحد ہو کر کم ز کم ’’ بی جے پی ‘‘ کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے ۔ یوں ’’ بی جے پی ‘‘ کی جاری شکستوں کا سلسلہ رک سکتا ہے اور اس کے کچھ ماہ بعد آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے بھارتی صوبے یو پی میں بھی ’’ بی جے پی ‘‘ کی یہی حکمت عملی جاری رہ سکتی ہے ۔ مودی اس عرصے کے دوران اب اپنی توجہ اقتصادی ایجنڈے پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس ضمن میں کوئی نظر آنے والی پیش رفت کر سکیں ۔
دوسرے خارجی عوامل میں سر فہرست امریکہ ، روس اور چین سمیت موثر عالمی قوتیں کا مودی پر دباؤ ہے ۔ خاص طور پر تیرہ نومبر کو پیرس میں ہونے والے دہشتگردی کے بعد ان ملکوں کا پریشر دہلی پر بہت بڑھ گیا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب میں رکاوٹ کا سبب نہ بنیں اور باہمی تعلقات میں نسبتاً بہتری لائیں ۔واضح رہے کہ مودی کی حالیہ تبدیلی کو کسی بھی طور حتمی یا مستقل قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ کم از کم وہ یو پی الیکشن کے نتائج تک اس حکمت عملی کو جاری رکھیں گے البتہ اگر آنے والے پانچ صوبوں اور یو پی میں ان کو حسب خواہش نتائج نہ ملے تو وہ پاکستان کے خلاف دوبارہ محاذ آرائی اور مہم جوئی کی پالیسی اختیار کرنے میں ذرا سا بھی تامل نہیں کریں گے ۔
ایسے میں پاکستان کے لئے غالباً یہ طرز عمل اپنانا بہتر ہو گا کہ وہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے نسبتاً محتاط اور متوازن لائحہ عمل اپنا کر بھارت کے ساتھ باہمی تعلقات میں پیش رفت کرتا نظر آئے اور اپنی ساری توجہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابی پر مرکوز کرے تا کہ بھارتی رویہ میں تبدیلی کی اس مہلت سے خاطر خواہ ڈھنگ سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔
علاوہ ازیں پاکستان مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کے ساتھ ساتھ ’’ عمر عبداللہ ‘‘ اور ’’ محبوبہ مفتی ‘‘ کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی جانب متوجہ ہو کیونکہ اٹھائیس نومبر کو فاروق عبداللہ نے بھارتی ٹی وی چینل ’’ این ڈی ٹی وی ‘‘ کو دیئے اپنے انٹر ویو میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ دہلی سرکار مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی پارلیمنٹ میں منظور ایک قرار داد کا تو بار بار ذکر کرتی ہے مگر جموں کشمیر کے حوالے سے منظور کردہ اقوام متحدہ کی بہت سی قرار دادوں کا نام تک نہیں لیتی ‘‘ ۔ ان کی اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے خاطر خواہ ڈھنگ سے پیش رفت ہو تو کشمیر کے دیرینہ تنازعہ کے حل کی طرف بڑھا جا سکتا ہے ۔
یومِ حق خود ارادیت کے موقع پر توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری اور پاکستانی سول سوسائٹی و میڈیا بھی اپنا قومی کردار ادا کرے گا ۔

( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

 

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements