Skip to content Skip to footer

!پاک فضائیہ اور جنگِ ستمبر

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu
بھارت کو اپنے ہوائی بیڑے پر اتنا ناز تھا جتنا بکتر بند ڈویژن پر تھا ۔ اس کے پاس طرح طرح کے طیارے تھے ۔ سب سے زیادہ بھارت کو گھمنڈ تو روس کے بنے ’’ مگ 21 لڑاکا طیاروں ‘‘ پر تھا ۔ جنہوں نے کوریا کی جنگ میں امریکی ہوائی بیڑے کے بھی چھکے چھڑا دیئے تھے ۔ بھارت کے مقابلے میں پاک فضائیہ کی حیثیت بظاہر ایک فلائنگ کلب سے زیادہ نہ تھی ۔ جس کے پاس فضا میں لڑنے کے لئے پرانی طرز کے سیبر طیارےpaf1 تھے ۔ وہ بھی تعداد کے اعتبار میں بھارت کا ایک چوتھائی ۔
جنگ شروع ہوتے ہی ہر شاہباز کو سورۃ الانفال کی اس آیت کی ایک ایک نقل دے دی گئی تھی جس میں اللہ نے فرمایا ’’ اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہیں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایک سو آدمی ہوں گے تو ایک ہزار کفار پر قابو پائیں گے ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘ مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ آیت ہر شاہباز کی جیب میں تھی ۔
یکم ستمبر کو چھمب جوڑیاں کی فضا میں بھارت نے اپنے ہوائی بیڑے کا جنگی مظاہرہ کیا اور کھل کر کیا ۔ اس نے چار مسٹیر اور دو کینبرا پاک فوج کی پیش قدمی روکنے کے لئے بھیجے ۔ ادھر سے صرف دو شاہبار گئے ۔ زمین و آسمان حیران تھے کہ یہ دو سیبر طیارے کتنی دیر تک فضا میں نظر آئیں گے لیکن فلک نے دیکھا ، زمین پر لڑتی دونوں فوجوں نے دیکھا کہ چار مسٹیر شاہینوں کے ہاتھوں فضا میں پھٹے اور دونوں کینبر ا ایک بھی گولی چلائے بغیر بھاگ گئے ۔
اس معرکے کا اثر پاک فوج پر نہایت خوشگوار پڑا ۔ جوانوں کے حوصلے اور بڑھ گئے ۔ دو ستمبر کو جب دشمن جوڑیاں بچانے کے لئے جم کر لڑ رہا تھا تب ایم ایم عالم اور دوسرے شاہبازوں نے بھارت کا بہت نقصان کیا ۔ تین ستمبر کو دشمن کے چھ نیٹ طیارے چھمب جوڑیا ں کے محاذ پر آئے ۔ ہمارے دو سٹار فائٹر 104 پہنچے تو بھارتی دم دبا کر بھاگ گئے مگر ایک کو گھیر کر پسرور میں اتار لیا گیا ۔ چھ ستمبر پاک فضائیہ کے لئے کڑی آزمائش کا دن تھا ۔ دونوں ملکوں کی کھلی جنگ شروع ہو گئی تھی ۔ اب فضائیہ کے سامنے چار کام تھے ۔ دشمن کے ہوائی حملوں کو روکنا ، دشمن اڈوں پر ہوئی حملے کرنا ، پاک فوج کو مدد دینا اور گشتی پروازیں کرنا ۔
بظاہر نا ممکن تھا کہ پاک فضائیہ یہ سارے مشن ایک وقت سنبھال سکے مگر شاہبازوں کے پاس ایمان کی قوت اور حب الوطنی کا جذبہ تھا اور اللہ کا وہ فرمان ان کے حوصلے بڑھا رہا تھا جو انہوں نے جیبوں رکھا تھا ورنہ طیاروں کی تعداد تو مایوس کن تھی ۔ لاہور فوج کو پاک فضائیہ کی شدید ضرورت تھی اور وہ اس قدر جلد پہنچے جیسے پہلے ہی سے فضا میں موجود تھے ۔ امرتسر سے ہزاروں سکھوں اور ہندوؤں کاقافلہ سکوٹروں ، سائیکلوں ، کاروں ، بسوں اور پیدل بھی لاہور کو لوٹنے کے لئے چل پڑا تھا ۔ شاہینوں نے بھارتی ٹینکوں اور گاڑیوں سے فارغ ہو کر اس عجیب و غریب لٹیرے گروہ پر حملہ کیا اور لاہور کو لوٹنے کے لئے آنے والے نہ لاہور پہنچ سکے نہ واپس امرتسر جا سکے ۔
اسی روز شام سے پہلے پٹھان کوٹ پر حملہ کیا گیا جہاں چودہ طیارے تباہ کر دیئے گئے ، ایک حملہ ہلواڑہ کے ہوائی اڈے پر بھیجا گیا لیکن انڈین ایئر فورس کے ہنٹر طیاروں کا پورا غول ان پر ٹوٹ پڑا ۔ فضا میں تین اور دس کا خون ریز معرکہ ہوا جس میں سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ خواجہ یونس حسن شہید ہو گئے ۔ صرف فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری واپس آئے لیکن ان شاہبازوں نے دشمن کے چھ ہنٹر مار لئے تھے ۔
اسی شام پاک فضائیہ کی ایک پرواز آدم پور بھیجی گئی اور تین بھارتی طیاروں کو تباہ کر آئی ۔ پھر جام نگر کے ہوائی اڈے پر بمباری شروع کر دی گئی اور یہ اڈہ ملبے کا ڈھیر بن گیا لیکن سکوارڈن لیڈر شبیر عالم صدیقی اور ان کا نیوی گیٹر سکوارڈن لیڈر اسلم قریشی واپس نہ آ سکے ۔ اگلے روز بی 57 بمبار طیاروں نے آدم پور پر حملہ کیا اور خوب تباہی مچائی ۔ بمباروں کی ایک اور پرواز پٹھان کوٹ بھیجی گئی تا کہ وہاں کی رہی سہی کسر پوری کر آئیں ، یہی پرواز وہاں سے واپس آئی تو اپنے اڈے سے بم لے کر ہلواڑہ چلی گئی ۔
انڈین فورس پہلے ہی دن بائیس بمبار لڑاکا طیاروں سے محروم ہو گئی ۔ بھارتیوں نے کراچی اور پنڈی پر ہوائی حملے کیا مگر کسی بھی فوجی یا فضائی ٹھکانے کو نقصان نہ پہنچا سکی ۔ سات ستمبر کو انڈین ایئر فورس نے مشرقی پاکستان میں چاٹ گام ، جیسور اور کرمی ٹولہ ڈھاکہ پر راکٹ اور بم گرائے لیکن بے مقصد اور بغیر کسی نقصان کے ۔ یاد رہے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فضائیہ کا صرف ایک سکوارڈن تھا ، جونہی بھارتی طیارے واپس گئے ۔ شاہین کلائی کنڈہ کے ہوائی اڈے پر جا جھپٹے ، بھارت نے اپنے ان لڑاکا طیاروں کو بڑے قرینے سے کھڑا کر رکھا تھا جو مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے لوٹے تھے ۔ شاہبازوں نے ان تمام طیاروں کو زمین پر نذرِ آتش کر دیا ۔
اسی روز ہمارا ایک فلائنگ آفیسر افضال شہید ہوا اور دشمن چودہ کینبر ا اور دو ہنٹر طیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ سات ستمبر کو دشمن نے پاک فضائیہ کے اڈے سرگودھا کی طرف بھرپور توجہ دی اور بمباری کے لئے اپنے طیاروں کو غول در غول بھیجا ۔ ان میں سے چار مسٹر زمینی توپچیوں نے اڑا ڈالے ۔ ایک F104 سے گرایا گیا اور پانچ سکوارڈن لیڈر ’’ محمد محمود عالم ‘‘ نے صرف 30 سیکنڈ کے عرصے میں گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا ۔ اس روز کے بعد انڈین ایئر فورس نے دن کے وقت سرگودھا پر حملہ کرنے کی کبھی جرات نہ کی ۔ پاک فضائیہ نے فاضلکا سیکٹر چوینڈہ سیالکوٹ ، جسر اور لاہور سیکٹر میں بھی بری فوج کی مدد کے لئے طیارے بھیجے جنہوں نے کئی ٹینک اور گاڑیوں تباہ کیں ۔ مقبوضہ کشمیر کے ہوائی اڈے پر بھی حملے کیے گئے جہاں تین مال بردار طیارے تباہ کیے ۔
پہلے دو دنوں میں بھارتیوں کو ساٹھ طیاروں سے محروم کر دیا گیا ۔ 8 ستمبر کو جب بھارت نے بکتر بند ڈویژن سے چوینڈہ سیالکوٹ پر حملہ کیا تو اس روز کم و بیش بیس پروازیں صرف اسی محاذ پر بھیجی گئیں جنہوں نے درختوں کی بلندیوں تک نیچے اڑ اڑ کر بھارتی ٹینک اور گاڑیوں تباہ کیں ورنہ لوہے اور آگ کے اس سیلاب کو روکنا آسان نہ تھا ۔
پاک فضائیہ کے شاہینوں نے نہ صرف چونڈہ ، سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر انڈین آرمی کے دستوں پر تباہ کن بمباری کی بلکہ دشمن کے ہوائی اڈوں ، جودھپور ، آدم پور ، انبالہ ، پٹھان کوٹ ، ہلواڑہ، جام نگر اور دیگر کو کچھ اس طرح سے نشانہ بنایا کہ سولہ ستمبر تک انڈین ایئر فورس کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ دن کے وقت اس کا کوئی طیارہ نظر نہیں آتا تھا اور اب شاہینوں کو اپنا شکار ڈھونڈنے کے لئے خاصی تگ و دو کرنی پڑتی تھی مثلاً ایم ایم عالم کو دریائے بیاس سے کافی دور جب دو ہنٹر نظر آئے تو انھوں نے بھارتی فضاؤں میں داخل ہو کر انھیں مار گرایا ۔ امرتسر کے قریب فلائیٹ لیفٹیننٹ یوسف علی خان نے ایک نیٹ مار گرایا ۔
انیس ستمبر کو چونڈہ میں جو نیٹ گرایا گیا ، اس کے پائلٹ مہا دیو کو گرفتار کر لیا گیا ۔ اکیس ستمبر کو ایک اور انڈین ہوا باز ’’ موہن لال ‘‘ کے جہاز کو گرا کر اسے گرفتار کر لیا گیا ۔ جنگ کے آخری روز کھیم کرن کی فضا میں بھارتی طیارہ تباہ کی گیا جس کا پائلٹ ہندوستان کے پہلا کمانڈر انچیف جنرل کری اپا کا بیٹا تھا ۔ اس کا پائلٹ جونیئر کری اپا قیدی بنا لیا گیا ۔ بائیس اور تیئس ستمبر کی درمیانی شب صبح تین بجے جنگ بندی ہو گئی ۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل نور خان کا کہنا تھا کہ ’’ بھارت سے جنگ لڑنے کے بعد پاک ایئر فورس پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئی ہے ‘‘ ۔ انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’ جنگ کے دوران میرے سامنے مسئلہ یہ نہیں تھا کہ پاک ہوا بازوں کو کیسے حملے کے لئے بھیجوں بلکہ دشواری یہ پیش آ گئی تھی کہ انھیں آگے بڑھ بڑھ کر حملے کرنے سے کیسے روکوں ‘‘ ۔
بہرحال فضائی جنگ کا سکور یہ رہا کہ دشمن کے ایک سو دس طیارے مار گرائے گئے جن میں سے پینتیس کو فضائی معرکوں میں گرایا گیا ، پنتالیس کو زمین پر تباہ کیا گیا اور بتیس زمینی توپچیوں کا نشانہ بنے ۔ یاد رہے کہ ان اعداد و شمار میں بھارت کے وہ پچیس طیارے شامل نہیں جو ایک امریکی نامہ نگار کے مطابق انبالہ کے ہوائی اڈے پر تباہ کیے گئے ۔ اس طرح بھارت کے تباہ شدہ جہازوں کی تعداد ایک سو پینتیس بنتی ہے ۔ شاہینوں نے ایک سو پچاس ٹینک ، چھ سو فوجی گاڑیاں اور گولہ بارود سے بھری چار بھارتی ٹرینیں اور سو کے قریب توپیں تباہ کیں ۔ در اصل حقیقی اعداد و شمار تو اس سے کہیں زیادہ ہیں لیکن پاک فضائیہ نے دشمن کی صرف اس تباہی کو اپنے ریکارڈ میں لکھا ہے جس کی دستاویزی گواہی حاصل ہوئی ہے ۔ دیگر ذرائع تو دشمن کا نقصان اس سے دگنا بتاتے ہیں ۔
سات بھارتی ہوا بازوں کا جنگی قیدی بنایا گیا اور ایک جہاز کو صحیح سلامت اتار کر قبضے میں لیا گیا جسے سکوارڈن لیڈر برج پال سنگھ اڑا رہا تھا ۔ پاک فضائیہ کے چودہ طیارے ضائع ہوئے ۔ ان میں سے نو فضائی معرکوں ، چار زمینی فائر اور ایک دشمن کی بارود سے بھری ریل گاڑی پر حملہ کرتے ہوئے اس ریل گاڑی کے بارود پھٹنے سے تباہ ہو گیا ۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کے کل جہازوں کی تعداد ایک سو پینتیس تھی مگر بھارتی ریڈیو نے روایتی جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے تباہ ہونے والے جہازوں کی تعداد چار سو بہتر بتائی ہے ۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جنگ کے سینتیس برس بعد جنوری 2002 میں ایئر مارشل ارجن سنگھ کو دہلی سرکار نے فضائیہ کا سب سے بڑا منصب یعنی مارشل آف دی ایئر فورس عطا کر دیا ۔ موصوف تقریباً ستانوے برس کی عمر میں تاحال زندہ ہیں ۔
بھارت سرکار کی اس دریا دلی کی وجہ خود بھارتی مبصرین بھی تلاش نہیں کر پائے کیونکہ 1965 میں انڈین ایئر فورس کے وائس چیف آف ایئر سٹاف ’’ پی سی لال ‘‘ کے مطابق ’’ انڈین ایئر فورس کے اس وقت کے سربراہ ایئر مارشل ارجن سنگھ اور بھارتی آرمی کی قیادت کے مابین باہمی رابطے کا خطرناک حد تک فقدان تھا ۔ ایک اور مغربی مبصر ’’ فرینک مورس ‘‘ نے ستمبر 1965 کے آخری ایام میں اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ’’ بھارتی فضائیہ کا سربراہ ارجن سنگھ بھارتی فضاؤں اور اپنی ایئر فورس کے تحفظ میں پوری طرح ناکام رہا ‘‘ ۔
بہر کیف 50 واں یومِ فضائیہ مناتے ہوئے پوری قوم اپنے شہید اور غازی شاہینوں کو سلام پیش کرتی ہے ۔

پانچ اور سات ستمبر کو دو حصوں میں روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔

( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

 

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements