Newspaper Article 14/11/2016
مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ روز پوری کشمیری قوم نے یومِ استقلال منایا اور اس موقع پر اپنے اس عہد کا اعادہ کیا کہ بھارت کی تمام تر ریاستی دہشتگردی کے باوجود جدوجہد آزادی کو ہر قیمت پر جاری رکھا جائے گا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حریت رہنما یاسین ملک کو گذشتہ روز ایک بار پھر ان کی شدید علالت کے باوجود گرفتار کر لیا گیا ۔ یاد رہے کہ وادی میں کرفیو کا آج 126 واں روز ہے، ضروریات زندگی کی شدید قلت ہے، موبائل، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں اور بھارتی جارحیت کے خلاف حریت رہنماوں نے بیس نومبر تک ہڑتال کی کال بھی دی ہوئی ہے۔
اسی پس منظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے لئے اسے فطرت کی جانب سے ایک وارننگ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی تمام تر احتیاط اور شاطرانہ چالوں کے باوجود عالمی اور علاقائی سطح پر کشمیر کا تنازعہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اہمیت اختیا ر کرتا جا رہا ہے ۔
یوں بھی تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کو شاطرانہ چالوں یا ریاستی دہشتگردی کے بل بوتے پرہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھنا کسی طور ممکن نہیں ۔
غیر جانبدار تجزیہ کار اس امر پر متفق ہیں کہ تحریکِ آزادی کشمیر ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ کشمیر پر قابض حکام کے لیے اپنے ناجائز تسلط کو قائم رکھنے میں مشکلات حائل ہوتی جا رہی ہیں جس کا مظہر یہ ہے کہ گذشتہ برس برطانوی پارلیمنٹ میں پہلی بار کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف قرار داد سامنے آئی ۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں آزادی کے حق میں ’’ کشمیر گرینڈ مارچ ‘‘ نکالا گیا اور بہت سے انسان دوست حلقوں کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا کہ جس طرح سکاٹ لینڈ کی آزادی کے حوالے سے ریفرنڈم منعقد ہوا ۔ اسی طرح کشمیر یوں سے بھی ان کی رائے جاننے کے لئے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریفرنڈم کروایا جائے ۔ خود بھارت کے کئی اعتدال پسند طبقے بھی ماضی قریب میں اسی موقف کا اظہار کر چکے ہیں ۔ جون 2014 میں بھارتی لوک سبھا کی خاتون رکن اور تلنگانہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی صاحبزادی ’’ کے کویتا ‘‘ نے اعتراف کیا تھا کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ طاقت کے زور پر کیا گیا ہے اس لئے بھارتی سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا جائے اور کشمیریوں سے ان کی رائے معلوم کی جائے ۔ اس سے پہلے عام آدمی پارٹی کے اہم رہنما اور بھارت کے ممتاز قانون دان ’’ پرشانت بھوشن ‘‘ چند روز قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر ی اگر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انھیں الگ ہونے کا حق فراہم کیا جائے ۔
دوسری جانب بھارت سرکار کی تشکیل کردہ کشمیر ثالثی کمیٹی کے سابق سربراہ ’’ دلیپ پنڈگونکر ‘‘ نے بھی کہا کہ پاکستان کو باہر رکھ کے تنازعہ کشمیر کے کسی بھی حل کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ‘‘ ۔ اس بیان پر بی جے پی اور انتہا پسند ہندو طبقات کی تنقید جاری تھی کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن اور سابق مرکزی وزیر قانون ’’ رام جیٹھ ملانی ‘‘ نے بھی دلیپ پنڈگونکر کے خیالات کو درست قرار دیتے ہوئے گویا بی جے پی اور کانگرس دونوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ۔ بھارتی سرکار اس صورت حال میں خود کو خاصا ہراساں محسوس کر رہی ہے ۔
یاد رہے کہ مقبوضہ ریاست میں احتجاج کی موجودہ لہر انڈین آرمی کی جانب سے بر ہان وانی کی شہادت کے خلاف شروع ہوئی جسے دہشتگرد قرار دے کر سفاکانہ ڈھنگ سے شہید کر دیا گیا ۔ علاوہ ازیں گذشتہ تین ماہ کے دوران 138نہتے اور معصوم کشمیریوں سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا گیا ۔ اس کے علاوہ پیلٹ گنوں کے استعمال سے جس سفاکانہ ڈھنگ سے سینکڑوں کشمیریوں سے ان کی بینائی چھینی گئی اور جا رہی ہے وہ اپنے آپ میں بربریت کی ایک بد ترین مثال ہے ۔ خود ہندوستان کے بعض انسان دوست حلقوں نے بھارت سرکار کی اس غیر انسانی روش کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
ایسے میں توقع رکھی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی دہلی سرکار کی اس روش کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں گے ۔ اس کے ساتھ خود دہلی کے حکمرانوں کو بھی احساس کرنا ہو گا کہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ محض طاقت کے بل بوتے پر کسی قوم کو ہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھا جانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔
اسی تناظر میں سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ’’ ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘ اپنی پرانی روش کو ترک کر کے زمینی حقائق کا ادراک کریں گے اور کشمیر کے دیرنہ مسئلے کے منصفانہ حل کی جانب ٹھوس پیش رفت کی جائے گی ۔
اسی پس منظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے لئے اسے فطرت کی جانب سے ایک وارننگ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی تمام تر احتیاط اور شاطرانہ چالوں کے باوجود عالمی اور علاقائی سطح پر کشمیر کا تنازعہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اہمیت اختیا ر کرتا جا رہا ہے ۔
یوں بھی تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کو شاطرانہ چالوں یا ریاستی دہشتگردی کے بل بوتے پرہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھنا کسی طور ممکن نہیں ۔
غیر جانبدار تجزیہ کار اس امر پر متفق ہیں کہ تحریکِ آزادی کشمیر ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ کشمیر پر قابض حکام کے لیے اپنے ناجائز تسلط کو قائم رکھنے میں مشکلات حائل ہوتی جا رہی ہیں جس کا مظہر یہ ہے کہ گذشتہ برس برطانوی پارلیمنٹ میں پہلی بار کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف قرار داد سامنے آئی ۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں آزادی کے حق میں ’’ کشمیر گرینڈ مارچ ‘‘ نکالا گیا اور بہت سے انسان دوست حلقوں کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا کہ جس طرح سکاٹ لینڈ کی آزادی کے حوالے سے ریفرنڈم منعقد ہوا ۔ اسی طرح کشمیر یوں سے بھی ان کی رائے جاننے کے لئے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریفرنڈم کروایا جائے ۔ خود بھارت کے کئی اعتدال پسند طبقے بھی ماضی قریب میں اسی موقف کا اظہار کر چکے ہیں ۔ جون 2014 میں بھارتی لوک سبھا کی خاتون رکن اور تلنگانہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی صاحبزادی ’’ کے کویتا ‘‘ نے اعتراف کیا تھا کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ طاقت کے زور پر کیا گیا ہے اس لئے بھارتی سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا جائے اور کشمیریوں سے ان کی رائے معلوم کی جائے ۔ اس سے پہلے عام آدمی پارٹی کے اہم رہنما اور بھارت کے ممتاز قانون دان ’’ پرشانت بھوشن ‘‘ چند روز قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر ی اگر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انھیں الگ ہونے کا حق فراہم کیا جائے ۔
دوسری جانب بھارت سرکار کی تشکیل کردہ کشمیر ثالثی کمیٹی کے سابق سربراہ ’’ دلیپ پنڈگونکر ‘‘ نے بھی کہا کہ پاکستان کو باہر رکھ کے تنازعہ کشمیر کے کسی بھی حل کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ‘‘ ۔ اس بیان پر بی جے پی اور انتہا پسند ہندو طبقات کی تنقید جاری تھی کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن اور سابق مرکزی وزیر قانون ’’ رام جیٹھ ملانی ‘‘ نے بھی دلیپ پنڈگونکر کے خیالات کو درست قرار دیتے ہوئے گویا بی جے پی اور کانگرس دونوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ۔ بھارتی سرکار اس صورت حال میں خود کو خاصا ہراساں محسوس کر رہی ہے ۔
یاد رہے کہ مقبوضہ ریاست میں احتجاج کی موجودہ لہر انڈین آرمی کی جانب سے بر ہان وانی کی شہادت کے خلاف شروع ہوئی جسے دہشتگرد قرار دے کر سفاکانہ ڈھنگ سے شہید کر دیا گیا ۔ علاوہ ازیں گذشتہ تین ماہ کے دوران 138نہتے اور معصوم کشمیریوں سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا گیا ۔ اس کے علاوہ پیلٹ گنوں کے استعمال سے جس سفاکانہ ڈھنگ سے سینکڑوں کشمیریوں سے ان کی بینائی چھینی گئی اور جا رہی ہے وہ اپنے آپ میں بربریت کی ایک بد ترین مثال ہے ۔ خود ہندوستان کے بعض انسان دوست حلقوں نے بھارت سرکار کی اس غیر انسانی روش کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
ایسے میں توقع رکھی جانی چاہیے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی دہلی سرکار کی اس روش کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں گے ۔ اس کے ساتھ خود دہلی کے حکمرانوں کو بھی احساس کرنا ہو گا کہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ محض طاقت کے بل بوتے پر کسی قوم کو ہمیشہ کے لئے غلام بنا کر رکھا جانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔
اسی تناظر میں سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ’’ ڈونلڈ ٹرمپ ‘‘ اپنی پرانی روش کو ترک کر کے زمینی حقائق کا ادراک کریں گے اور کشمیر کے دیرنہ مسئلے کے منصفانہ حل کی جانب ٹھوس پیش رفت کی جائے گی ۔
تیرہ نومبر کو روز نامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔
( مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جن کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )