Newspaper Article 20/07/2014
سبھی جانتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشتگردی جاری ہے۔اسی پس منظر میں ۱۹ جولائی کو ہرسال دنیا بھر کے کشمیری اور تمام انسان دوست حلقے\”یوم الحاقِ پاکستان\”کے طورپرمناتے ہیں۔ کیونکہ ۱۹۴۷ میں اسی روز کشمیر کے سبھی طبقات کی بھاری اکثریت نے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔مگر دہلی سرکارنے گذشتہ ۶۷ برسوں سے کشمیری عوام کو ان کا بنیادی انسانی حق یعنی اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ اور اسی آزادی کی جدوجہد میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری حریت پسند اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔اسی صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ بھارتی حکمران اپنے منفی عزائم کی تکمیل کے لئے ہر قسم کے ظلم اور سازشوں کو روارکھے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال کا قدرے تفصیلی جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ ۱۹جولائی ۱۹۴۷ کو آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کا ہنگامی اجلاس سری نگر میں منعقد ہوا۔یہ اجلاس سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر ہوا اور اس کی صدارت چوہدری حمیداللہ خان نے کی۔جس میں خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحیم وانی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد پیش کی ۔اس اجتماع میں ۵۹ اہم ارکان نے شرکت کی اور اجلاس نے اس قرار کو متفقہ طور پر منظور کر لیا اور فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ ریاست جموں کشمیر مذہبی،ثقافتی،جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ گہری مماثلت رکھتی ہے اس لئے ریاست کے عوام اور خواص اپنا مستقبل مملکتِ خداداد پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کی قرارداد منظور کرتے ہیں۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۷ کو بھارتی فوج نے کھلی جارحیت کے ذریعے ریاست پر ناجائز تسلط جما لیا اور گذشتہ ۶۷ برسوں میں کشمیری عوام کے خلاف دہلی نے نسل کشی کا گھناؤنا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔اپنے نا جائز تسلط کو جاری رکھنے کے لئے ہندوستانی سیکورٹی فورسز نے مختلف طرح کے جابرانہ قوانین نافذ کر رکھے ہیں مثلاً ’’اے ایف ایس پی اے‘‘اور ’’پی ایس اے‘‘ وغیرہ۔
دوسری جانب چند روز قبل نئی ہندوستانی حکومت نے اقوامِ متحدہ کے مبصرین سے کہا ہے کہ اب ان کی دہلی میں تعیناتی کی ضرورت باقی نہیں بچی کیونکہ ۱۹۲۷ کے شملہ معاہدے کے تحت کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں میں دو طرفہ بنیاد پر حل کرنا طے پایا تھا لہذا اقوامِ متحدہ کا کوئی کردار باقی نہیں بچا۔اس لئے وہ دہلی میں اپنا دفتر بند کر دیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان نے اس بھارتی قدم کو عالمی ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے کہا ہے کہ ایسی حرکات سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود کشمیر کے دیرینہ تنازعہ کو کسی بھی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔دیگر اعتدال پسند حلقوں نے بھی بھارت کے اس فیصلے کو طفلانہ مگر انتہائی اشتعال انگیز قدم سمجھتے ہوئے کہا ہے کہ محض چند روز قبل ممتاز بھارتی صحافی اور دانشور ’’ڈاکٹر وید پرتاب ویدک‘‘ نے پاکستانی اور بھارتی الیکٹرانک میڈیا کو انٹر ویو دیتے کشمیر اور کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کی ہے حالانکہ موصوف کا ’’بی جے پی‘‘اور ’’آر ایس ایس ‘‘سے گہرا تعلق ہے۔مگر چونکہ بھارت کے بالا دست طبقات کسی کے منہ سے حق اور سچ کی بات سننا نہیں چاہتے اسی وجہ سے پچھلے تین دنوں سے بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ایک ہنگامہ برپا ہے اور شیوسینا کے سربراہ ’’اودت ٹھاکرے‘‘ (بال ٹھاکرا کا بیٹا) اور اکثر ہندوستانی حلقوں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ’’ڈاکٹر وید پرتاب ویدک ‘‘ کو غدار قرار دیتے ہوئے اجمل قصاب اور افضل گرو کی طرح پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے۔
غیر جانبدار مبصرین نے کہا ہے کہ ۱۹ جولائی کو یومِ الحاقِ پاکستان مناتے ہوئے پوری کشمیری قوم دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں سے مطالبہ کرے گی کہ اجتماعی انسانی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے تنازعہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے وگرنہ اس خطے میں پائیدار امن و سلامتی کی توقع رکھنا سوائے خوش فہمی کے اور کچھ نہیں ۔گویا
ظلم رہے اور امن بھی ہو۔
کیا ممکن ہے تم ہی کہو۔
اٹھارہ جولائی کو نوائے وقت میں شائع ہوا
(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں)