Skip to content Skip to footer

یومِ پاکستان ،بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ

birlikte yaşadığı günden beri kendisine arkadaşları hep ezik sikiş ve süzük gibi lakaplar takılınca dışarıya bile çıkmak porno istemeyen genç adam sürekli evde zaman geçirir Artık dışarıdaki sikiş yaşantıya kendisini adapte edemeyeceğinin farkında olduğundan sex gif dolayı hayatını evin içinde kurmuştur Fakat babası çok hızlı sikiş bir adam olduğundan ve aşırı sosyalleşebilen bir karaktere sahip porno resim oluşundan ötürü öyle bir kadınla evlenmeye karar verir ki evleneceği sikiş kadının ateşi kendisine kadar uzanıyordur Bu kadar seksi porno ve çekici milf üvey anneye sahip olduğu için şanslı olsa da her gece babasıyla sikiş seks yaparken duyduğu seslerden artık rahatsız oluyordu Odalarından sex izle gelen inleme sesleri ve yatağın gümbürtüsünü duymaktan dolayı kusacak sikiş duruma gelmiştir Her gece yaşanan bu ateşli sex dakikalarından dolayı hd porno canı sıkılsa da kendisi kimseyi sikemediği için biraz da olsa kıskanıyordu

23 مارچ کو وطنِ عزیز کے طول و عرض میں یومِ پاکستان کا تہوار قومی ولولے اور عقیدت سے منایا جاتا ہے کیونکہ 1940 میں اسی روز بر صغیر کے مسلمانوں نے قرار دادِ لاہور کے ذریعے واضح لائحہ عمل اپناتے ہوئے علیحدہ وطن کا با ضابطہ مطالبہ کیا اور قائدِ اعظم کی متحرک اور فعال قیادت میں معجزانہ طور پر محض 7 برس کے عرصے میں دنیا کے نقشے پر مملکتِ خداداد پاکستان کا وجود عمل میں آیا ۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کے بعض نام نہاد دانشور آئے روز قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف قسم کے منفی ریمارکس دیتے رہتے ہیں جس سے بعض نا پختہ ذہنوں میں منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ناقدین کے ذہنوں میں بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی حالتِ زار کا سرسری سا احوال بھی پیشِ نظر رہے تو شاید کفرانِ نعمت کے مرتکب ان افراد اور گروہوں کی روش میں قدرے مثبت تبدیلی رونما ہو سکے۔یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ بھارت کے جمہوریت اور سیکولر ازم کے تمام دعووں کے باوجود 20 کروڑ کے لگ بھگ ہندوستانی مسلمان آج بھی دوسرے ہی نہیں بلکہ تیسرے درجے کے شہری ہیں۔
ایک انسان دوست بنگالی ہندو دانشور ’’شرت بسواس‘‘ نے کچھ عرصہ پہلے BBC کی ہندی سروس میں بھارتی مسلمانوں کی حالت کا ذکر کرتے کہا تھا کہ بلاشبہ بھارت میں ڈاکٹر ذاکر حسین،فخر الدین علی احمد اور عبدالکلام کو صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا اور ممبئی کی فلم انڈسٹری میں بھی چند مسلمان اداکار اہم کردار کے حامل رہے ہیں۔مگر اس سے آگے بھارتی مسلمانوں کے ضمن میں کوئی اچھی خبر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔بھارتی وزیرِ اعظم ’’من موہن سنگھ‘‘ نے 9 مارچ2005 کو جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں مسلمانوں کا احوال جاننے کے لئے جو سچر کمیٹی بنائی تھی۔وہ 30 نومبر 2006 کو اپنی رپورٹ پیش بھی کر چکی مگر بھارتی مسلمانوں کی حالت پہلے سے بھی بد تر ہو گئی ہے۔
بہر کیف اس ’’سچر ‘‘رپورٹ کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی 94.9 فیصد خطِ افلاس سے نیچے اور شہری علاقوں میں 61.1 فیصد غریبی ریکھا سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
دیہی علاقوں کی 54.6 فیصد اور شہری علاقوں کی 60 فیصد نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔دیہی علاقوں میں مسلم آبادی کے 0.8 اور شہری علاقوں میں 3.1 مسلم گریجوئیٹ ہیں اور 1.2 پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔
مغربی بنگال کی کل آبادی کا %25 مسلمان ہیں۔مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح 4.2 % ہے۔آسام میں یہ شرح 40 % مگر نوکریاں 11.2% ،کیرالا میں 20% آبادی کے پاس 10.4 فیصد سرکاری نوکری ہے ۔
واضح رہے کہ بھارتی فوج اور خفیہ اداروں نے اپنے یہاں سچر کمیٹی کو سروے کی اجازت ہی نہیں دی تھی مگر عام رائے یہ ہے کہ ان اداروں میں مسلم نمائندگی کی شرح کسی طور بھی 3 فیصد سے زائد نہیں۔
اس تصویر کا یہ رخ اور بھی بھیانک ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمان کل آبادی کا 10.6 فیصد ہیں مگر یہاں کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 32.4 فیصد حصہ مسلمان ہے۔دہلی کی آبادی میں مسلمان 11.7 فیصد مگر جیلوں میں کل قیدیوں کا 27.9 فیصد،صوبہ گجرات کی جیلوں میں کل بند افراد کا 25.1 فیصد مسلمان ہے جبکہ آبادی میں یہ تناسب 9.1 فیصد ہے،کرناٹک کی جیلوں میں 17.5 فیصد مسلمان بند ہیں جبکہ آبادی میں یہ تناسب 12.23 فیصد ہے،مہاراشٹر کی جیلوں میں ایک برس سے زائد مدت سے قید افراد میں 40.6 مسلمانوں پر مشتمل ہے۔یہ المیہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ جیلوں میں بند بھارتی مسلمانوں کی بھاری اکثریت محض شبہے میں معمولی الزامات کے تحت بند رکھی گئی ہے۔بھارتی مسلمانوں کو اس عجیب صورتحال سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے ہم نوا کہتے ہیں کانگرس نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جبکہ کانگرس سمیت تمام سیکولر پارٹیاں انڈین آرمی،خفیہ ادارے،پولیس ،میڈیا اور عدلیہ کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ ان کی وفاداری کو مشکوک سمجھتا ہے ۔بنکوں سے قرضہ ملنا تو دور کی بات اپنے آبائی علاقوں کے باہر کرائے پر دکان یا مکان دیا جانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔اور سچر کمیٹی کی ان سفاشات پر آٹھ برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود ذرہ برابرعمل درآمد نہیں ہوا۔
ایسے میں وطنِ عزیز کے سبھی حلقوں کو یومِ پاکستان مناتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار کو سامنے رکھنا چاہیے اور خود احتسابی اور خود مذمتی میں حائل فرق ملحوظ رکھا جائے کہ با شعور اور زندہ قوموں کا یہی طریقہ ہوتا ہے اس بابت اصل ذمہ داری مقتدر طبقات (بھلے ہی وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں)،سول سوسائٹی اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔بھارتی الیکشن کے بعد بھی؂ اس ضمن میں کسی مثبت تبدیلی کی توقع نہ ہونے کے برابر ہے۔

(مندرجہ بالا تحریر مصنف کے ذاتی خیالات ہیں جس کے لئے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ذمہ دار نہیں )

Show CommentsClose Comments

Leave a comment

IPRI

IPRI is one of the oldest non-partisan think-tanks on all facets of National Security including international relations & law, strategic studies, governance & public policy and economic security in Pakistan. Established in 1999, IPRI is affiliated with the National Security Division (NSD), Government of Pakistan.

Contact

 Office 505, 5th Floor, Evacuee Trust Complex, Sir Agha Khan Road, F-5/1, Islamabad, Pakistan

  ipripak@ipripak.org

  +92 51 9211346-9

  +92 51 9211350

Subscribe

To receive email updates on new products and announcements